ڈاکٹر قمر حسین انصاری
یہ ایک پُرانی کہاوت ہے جو صدیوں سے عرب ممالک میں کہی اور سُنی جاتی ہے۔ ’’اس سے پہلے کہ تم سے حُجت کی جائے ، یا روکا جائے یا حالات غیرسازگار ہوجائیں ، صحت خراب ہوجائے ، عُمر ڈھل جائے ، پیرانِ سالی آ دبوچے یا بدقسمتی ہی آڑے آئے ۔ حج کرلو ! ‘‘
ہر مسلمان اپنے دل میں بیت اﷲ اوردیارِ نبیؐ کے لئے بہت جوش و خروش رکھتا ہے بلکہ دُعاگو رہ کر ایک عُمر نقل و حمل کے اسباب اور وسائل کے لئے جدوجہد کرتا رہتا ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق ملتِ اسلامیہ کے صرف ۲۰فیصد ہی لوگ یہ شرف حاصل کرتے ہیں گو کہ باقی لوگ اپنی نیت پر اجر سے محروم نہیں رہتے مگر جو کہاوت ہے: ’’شُنیدہ کہ بود مانند دیدہ ‘‘ یعنی سُننا وہ نہیں جو دیکھا جاتا ہے ۔
اﷲ کے گھر کا سفر اﷲ ہی کے ارادے کے مطابق طئے ہوتا ہے اور بندہ کو ہر لمحہ یاد دلایا جاتا ہے کہ کم سے کم اتنی دیر کے لئے تو اپنے ارادے کو مغلوب کرکے اپنی بندگی ، بیچارگی اور بے بسی کو محسوس کرنا سیکھ ! حج ایک منفرد عمل کا نام نہیں ہے بلکہ ایک طویل اور مسلسل مجموعہ ٔ اعمال کا نام ہے جس میں کچھ فرائض ہیں ، کچھ سنتیں ہیں اور کچھ مستحبات! اس مجموعہ اعمال کا سب سے اہم جُز ۹ ؍ ذی الحجہ عرفات کی حاضری ہے جسے ’’یوم عرفہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ’’خطبۂ الوداع ‘‘ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے ۔
حج ایک مسلمان صاحب استطاعت پہ زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جسے اﷲ کے حکم کی اطاعت اور رضا کے لئے کیا جائے ۔ حج اگر حلال آمدنی ، اخلاق اور نبی کریم ﷺ کی سُنت کے مطابق کیا جائے تو ’’مبرور‘‘ ہے جس کا اجر ’’جنت ‘‘ ہے ۔مناسک حج ، شرائط ، فقہی احکامات پر ساری دنیا میں مختلف زبانوں میں علماء کرام نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں جن کے تفصیلی معائنہ سے ادائیگی حج کی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے جو بے حد ضروری ہے ۔
کعبۂ مقصود : ’’یقینا پہلا گھر جو انسانوں کی عبادت کے لئے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ ( بکہ) میں ہے جو بابرکت اور جہانوں کے لئے راہِ ہدایت ! ( آلِ عمران ) روئے زمین پر سب سے پہلا عبادت خانہ جس کی بنیاد خود حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے رکھی ۔ اﷲ اکبر ! اول بیت بھی یہی ہے اور آخری بیت بھی یہی ہے۔ یہ جس وقت ہٹے گا سارا کارخانۂ حیات بھی ہٹ کر رہے گا ۔ ’’قِيَامًا لِّلنَّاسِ ‘‘ کی اس سے زیادہ صاف ، واضح اور روشن تفسیر اور کیا ہوگی ؟ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں : رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ بیت اﷲ شریف کا حج موقوف نہ ہوجائے‘‘۔( صحیح بخاری )
میں نے اپنا پہلا حج ۱۹۷۶ء میں ولیعہد فہد بن عبدالعزیز کی فیملی کے ساتھ ڈیوٹی پر کیا ۔ میری خوش نصیبی کہیے کہ میرے ہمراہ میری والدہ مرحومہ اور پھوپھو مرحومہ تھیں جو خواتین کے ساتھ تھیں ۔ اُن کا خاص خیال رکھا گیا ۔ میرا خیمہ ایمبولینس تھا جس میں میں نے عام و خاص حجاج کرام کی رات دن طبی خدمت کی ۔ اﷲ قبول فرمائے ۔ آمین اُس وقت حاجیوں کی تعداد مشکل سے چار یا پانچ لاکھ ہوگی ۔ آج کل تو چار یا پانچ ملین حاجی آتے ہیں ۔ ماشاء اﷲ ۔ وہ دور شاہ خالد بن عبدالعزیز کا ’’سنہری دور ‘‘ تھا ۔ اُن کی فیاضی اور صلہ رحمی کے قصے آج بھی لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔ شاہ خالد ضیوف الرحمن کی خدمت کو اپنی خوش نصیبی اور سعادت سمجھتے تھے ۔ اس لئے انھوں نے حاجیوں کے لئے بڑی رعایتیں دے رکھی تھیں جیسا حاکم ویسی رعایا جو حاجیوں کی مہمان نوازی بڑھ چڑھ کر کیا کرتے تھے ۔ شاہ خالد اپنے دور کے غیرسرکاری ’’خلیفۃ المسلمین ‘‘ بن چکے تھے ۔ سارے مشرق وسطیٰ میں امن و امان قائم تھا اﷲ اُن کو جزائے خیر عطا کرے اور جنت میں درجات بُلند رکھے ۔ ( آمین )
آج کل حج کا مقدس فریضہ اندرون اور بیرون ممالک کے منتظمین کے لئے ایک تجارت بن گیا ہے ۔ حج کی ادائیگی میں اُس کے آسمان کو چھونے والے مصارف ایک بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں ۔ آج کا حاجی ’’ضیوف التاجرین ‘‘ بن گیا ہے اور ہر قسم کی تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کررہا ہے ، ضرور ہے کہ اﷲ اُن کے تکلیفوں کے بدل اُن کے حج کو مقبول اور مبرور بنادے ۔ ان شاء اﷲ ! سہولت کاروں کو چاہئے کہ وہ حاجیوں کی دُعا لیں نہ کہ ہائے یا بددُعا ۔
میری دلی دُعا ہے کہ اس سال جن خوش نصیب خواتین و حضرات کو حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے اﷲ اُن کے حج کو آسان ، مبارک ، مقبول و مبرور کرے ۔ آمین