ڈاکٹر قمر حسین انصاری
(…گزشتہ سے پیوستہ…)
حج ایک مقدس عبادت اور دعوتی مشن ہے جس کا مقصد اﷲ کی محبت اور رضا کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص حج کا ارادہ کرے تو پھر اُس کو جلد پورا کرے ‘‘ ۔ اس لئے ’’حُجّوا قَبْلَ أَنْ لَا تَحُجّوا‘‘۔ اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا ۔ انھوں نے پوچھا : ’’یا رسول اﷲ ﷺ ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے افضل نیک کاموں میں جہاد ہے پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں سب سے افضل جہاد حج ہے جو حج مبرور ہو ۔ ( صحیح بخاری )
کیسا مبارک وہ نظارہ رہتا ہے جب دُنیا کے مختلف ممالک کے قافلے وفود اپنے اپنے مواقعات نعرۂ مستانہ ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَ لَبَّیْکَ ط ‘‘ لگاتے ہوئے والہانہ ، عاجزانہ ، مُلتجیانہ جب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچتے ، اُن سب کی بلند آوازوں میں درد و محبت سِمٹ آتا ، اُن کی آنکھوں میں موجزن عقیدت سے آنسو چھلکتے اور ہم نے دیکھا کہ نعرۂ تلبیہ مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے ٹکراکر فضاء میں بکھرتے روح پرور آہنگ ہوجاتے خود ہمارے دلوں کو چُھوجاتی اور آنکھیں تر ہوجاتیں۔
مقامِ ابراہیم : مقامِ ابراہیم کا نام کلامِ مجید میں دو بار آیا ہے ۔ یہ وہ بابرکت جگہ ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہوکر اﷲ کے حکم سے اُس کے گھر کی تعمیر کی ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ کعبۃ اللہ کی تعمیر کے دوران جب دیواریں اونچی ہونے لگیں تب حضرت جبرئیلؑ نے جنت سے ایک پتھر لاکر خلیل اﷲ کی خدمت میں پیش کی جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی دیواریں بلُند کرنا شروع کردیں۔ جب نیچے سے پتھر اور گارا وغیرہ کی ضرورت پڑتی یہ پتھر خود بخود نیچے ہوجاتا اور جوں جوں دیوار بُلند ہوتی جاتی یہ پتھر بھی از خود بُلند ہوتا جاتا ۔ سبحان اﷲ ! یہ خلیل اﷲ کا معجزہ تھا اور اﷲ کی نشانی ! جب حضرت ابراہیم ؑ پتھر پر کھڑے ہوتے یہ پتھر موم کی طرح نرم ہوجاتا کیونکہ آپؑ نے ننگے پیر کھڑے ہوکر تعمیر کی جس کی وجہ سے خلیل اﷲ کے قدم مبارک کے نشان بنے جاتے جو آج تک محفوظ ہیں۔ ہزاروں سال میں کسی سے مٹائے نہ گئے یہ دوسرا معجزہ تھا کیونکہ ’’اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ‘‘(سورۃ الصافات) نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ یہ پتھر بھی حجر اسود کی طرح آج تک محفوظ چلا آتا ہے ۔ یہ پتھر رسول اﷲ ﷺ بلکہ حضرت صدیقؓ کے زمانے تک خانۂ کعبہ کی دیوار سے متصل اپنی جگہ رہا ۔ ناچیز کو اس جگہ دو رکعت نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہے ۔ الحمدﷲ ۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی تفسیر میں سنن بیہقی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عہد فاروقیؓ میں ایک سیلاب آیا جس سے یہ پتھر اپنی جگہ سے ہٹ گیا ۔ حضرت عمر فاروقؓ کو جب خبر ہوئی تو آپؓ خود تشریف لائے اور اس پتھر کو دیوارِ کعبہ سے کچھ فاصلہ پر مطاف سے باہر ایک مقام پر رکھوادیا جو آج تک وہیں پر رکھا ہوا ہے البتہ ایک چھوٹی سے جالی دار کوٹھری بنادی گئی ہے جس میں ایک قبہ بھی محفوظ ہے۔ پہلے ہر شخص زیارت کرسکتا تھا مگر کوٹھری بند ہونے سے کسی خوش نصیب کو کسی خاص وقت میں زیارت کا موقعہ مل جائے ۔ مطاف کے کنارے مشرق جانب ایک خوبصورت محراب پتھر کی کھڑی ہے جو ’’محراب النبیؐ ‘‘ کہلائی جاتی ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام اکثر اسی راستے سے تشریف لاتے تھے ۔ اسی محراب کے قریب سمت جنوب میں وہ نفس و نفیس خوش نما قبہ ہے جس کے نیچے وہ مبارک پتھر کوٹھری میں بند رکھا ہے ۔ سننے میں آیا ہے کہ حجر اسود اور اس مقام کے درمیان ۲۷ گزکا فاصلہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پتھر تین بالشت اونچا اور دو بالشت چوڑا ہے ۔ اُس پر چاندی کا پتر چڑھا دیا گیا ہے صرف وہی جگہ جس پر قدم مبارک کے نقش ہیں اپنی اصلی حالت میں چھوٹی ہوئی ہے جس کی زیارت کے لئے عازمین کا اژدھام رہتا ہے ۔
مقدس کلام میں یوں ذکر ہے ’’فِيْهِ اٰيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ اِبْـرَاهِـيْمَ ۖ ‘‘ ( سورۂ آلِ عمران )
دوسری جگہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى ‘‘ ( سورۃ البقرہ) اسے نماز کا ٹھکانہ بناؤ ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس نماز سے طواف کے بعد پڑھی جانے والی دو واجب رکعتیں مراد ہیں۔بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا : پروردگار نے میرے ساتھ تین باتوں میں موافقت کی ۔ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ کیا ہم مقامِ ابراھیمؑ کو مُصلیٰ نہ بنالیں تو یہ آیت نازل ہوئی ’’وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى ‘‘ ۔ رسول اﷲ ﷺ نے یوں ہی نہیں فرمایا : ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے ‘‘ ۔ حدیث میں ہے کہ رکن اور مقامِ جنت کے یاقوت ہیں ۔ اﷲ نے اُن کے نور کو کم کردیا ہے ورنہ یہ بڑے منور ہوتے ۔ ( ترمذی ، احمد ، حاکم اور ابن حبان ) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے رُکن کو چوما پھر مقامِ ابراہیمؑ پر آئے اور یہ آیت پڑھی وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْـرَاهِيْمَ مُصَلًّى اور وہاں دو رکعت پڑھے۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ ٹکڑا ہی بڑی حدیث کا ہے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں حاتم بن اسمٰعیل سے روایت کی ہے اس لئے امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ نماز واجب ہے گو امام شافعیؒ کے ہاں سنت ہے ۔ امام محمدؒ کے الفاظ صاف اور و اضح ہیں کہ مقامِ ابراھیمؑ آکر دو رکعت نماز پڑھو یا مسجد حرام میں جہاں کہیں آسانی سے جگہ مل جائے وہاں پڑھو جو آکل کے ہجوم میں عملی یا پریکٹیکل ہے ۔