جمہوری طور پر منتخبہ حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کی بہترا ور ملک کی ترقی کو یقینی بنانے کے منصوبوں کے ساتھ عمل کریں۔ ان کی ترجیحات سماج میں اتفاق اور اتحاد کوفروغ دینا اور یکجہتی کو آگے بڑھانا ہونی چاہئے تاہم ملک میں کئی ریاستی حکومتیں ایسے کاموں میںمشغول ہوگئی ہیں اور ان کی ترجیحات اس طرح کی ہوگئی ہیں کہ سماج میں اتحاد و اتفاق کی بجائے اختلاف و نفاق کو فروغ مل رہا ہے ۔ حکومتیں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانے میں مصروف ہونی چاہئیں۔ ریاستوں اور ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ حکومتوں کی ترجیحات میںمذہبی امور شامل نہیںہونے چاہئیں۔ مذہبی مسائل عوام کے اپنے ذاتی مسائل ہیں۔ وہ شخصی ترجیحات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان سے حکومتوں کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے ۔ حکومتیں تاہم اب اسی طرح کی ترجیحات میں مشغول ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کہیںپیچھے ہو رہی ہے ۔ حکومتوں کی جانب سے ریاستیں ہوں یا سارا ملک ہو عوام اور ملک کے مفادات کے تحفظ پر توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عوام کو ملازمتیں فراہم کرنے کے منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔ تجارتی سرگرمیوں کوفروغ دیا جانا چاہئے ۔ ملک اور ریاست میں تعلیمی سہولیات کوفروغ دیا جانا چاہئے ۔ انفرا اسٹرکچر کو بہتر بناتے ہوئے سماج میں بہتری لائی جانی چاہئے ۔ سہولیات میںاضافہ کیا جانا چاہئے ۔ سماج میں پائی جانے والی برائیوں اور توہمات کو ختم کرنے کیلئے کام کیا جانا چاہئے ۔ ملک اور ریاست سے غربت کو ختم کرنے کے منصوبے تیار کئے جانے چاہئیں۔ خواتین کے تحفظ اور ان کی سکیوریٹی کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ سماج کے جو پچھڑے ہوئے اور مجبور طبقات ہیں انہیں سہولیات فراہم کرنے اور انہیں سماج میں دوسروںکے برابر حقوق فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سماج میں یکسانیت پیدا کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ جہاں صنعتی ترقی کیلئے اور کارپوریٹ سرگرمیوں کوفروغ دینے کیلئے حکمت عملی بنائی جانے کی ضرورت ہے وہیں زرعی شعبہ کو مستحکم کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
آج صورتحال اس کے بالکل برعکس ہوگئی ہے ۔ ترقیاتی اور فلاحی اقدامات کہیںپیچھے چھوٹ رہے ہیں۔ توجہ ہے توصرف اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دینے پر ہے ۔ سماج میں اتفاق کی بجائے نفاق پیدا کرنے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے ۔ملک کی کسی ریاست میں مدرسوں کی جانچ ہو رہی ہے تو کہیں گرجا گھروں اورعیسائی برادری کی تفصیلات اکٹھا کی جا رہی ہیں۔ کہیں پسماندہ طبقات کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے تو کہیں یہ منصوبے بنائے جا رہے ہیں کہ کس کو ووٹ دینا چاہئے اور کس کو نہیں۔ کہیں حلال گوشت کی بات ہو رہی ہے تو کہیں حجاب کے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ کہیں کسی کے رسم و رواج پر مباحث کئے جا رہے ہیں تو کہیں کسی ایک برادری کی بالادستی کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ کہیں کسی طبقہ کو اس کے حقوق سے محروم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو ملک کے قانون ساز اداروں میں بیٹھنے والے ذمہ دار افراد کی جانب سے کسی ایک مخصوص طبقہ کو گھروں میںہتھیار جمع کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے ۔ کسی رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کسی کو گھروں میں ہتھیار رکھنے کی تاکید کرے ۔ ایسا کرنے دستور اور قانون دونوں کی خلاف ورزی ہے تاہم ایسا کیا جا رہا ہے ۔ اپنے اپنے حلقوں کی ترقی ‘ اپنے حلقوں کے عوام کے مسائل کی یکسوئی اور انتظامیہ کو موثر اور بہتر بنانے پر ان کی کوئی توجہ نہیں رہ گئی ہے ۔
حکومتیں دستور اور قانون کے مطابق کام کرنے کاپابند ہوتی ہیں۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر عوام کو راحت اور سہولیات فراہم کرنے کے منصوبے تیار کرنا اور ان پر عمل کرنا حکومتوں کافریضہ ہے لیکن ایسا کیا نہیں جا رہا ہے ۔ حکومتوں کی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں۔ سماجی انصاف اور مساوات ان کا فریضہ ہے اور ان کا ذمہ ہے لیکن اس کی تکمیل میں کسی کو دلچسپی نہیں رہ گئی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اختلافی اور نزاعی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے اور عوام میں نفاق اور اختلاف پیدا کرنے کی بجائے ملک کے تمام طبقات کو ایک دوسرے سے جوڑنے پر توجہ دی جائے ۔ عوام کے مسائل کو حل کرتے ہوئے انہیں ملک کی ترقی اور بہتری میں اپنا رول ادا کرنے کے قابل بنایا جائے ۔ ان کی صلاحیتوں کو ملک کے مفادات میں استعمال کرنے کے منصوبے بنائے جائیں۔ یہی حکومتوں کا فرض اور ذمہ داری ہے ۔