حکومت تلنگانہ اور تلگو فلمی صنعت

   

کوئی چاہے زباں سے کچھ نہ بولے
مگر فطرت کے جوہر بولتے ہیں
تلنگانہ میں گذشتہ دنوںسے فلمی صنعت اور حکومت کے مابین تعلقات کشیدہ ہونے کی اطلاعات گشت کر رہی تھیں۔ سارا معاملہ تلگواداکار الو ارجن کی فلم پشپا کے ایک شو کے دوران سندھیا تھیٹر میںہوئی بھگدڑ کے بعد پیدا ہوا ہے ۔ اس بھگدڑ میں ایک خاتون کی موت واقع ہوگئی جبکہ اس کا لڑکا ابھی تک موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔ الو ارجن سے اس معاملے میں متعلقہ پولیس نے پوچھ تاچھ بھی کی ہے اور الو ارجن کی جانب سے متوفی کے افراد خاندان کیلئے مالی امداد کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہسوشیل میڈیا پر دو گروپس بن گئے ہیں۔ ایک گروپ کی جانب سے حکومت تلنگانہ کے اقدامات کی ستائش کی جا رہی ہے تو دوسرے گروپ کی جانب سے تلگو فلمی صنعت اور اداکار الو ارجن کا دفاع پورے زور و شور کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ اصل مسئلہ کسی ایک فریق کی تائید یا دوسرے کی مخالفت نہیں ہے ۔ سارا معاملہ نظم و ضبط اور انسانی زندگیوں سے متعلق ہے ۔ کسی کی فلم کی کامیابی یا ناکامی اتنی زیادہ معنی نہیں رکھتی جتنی ایک انسان کی زندگی رکھتی ہے ۔ حالانکہ کچھ گوشوں کی جانب سے متوفی خاتون کے شوہر کے ذریعہ پولیس میں درج کروائی گئی شکایت واپس لینے کی بھی بات کی گئی ہے ۔ تاہم بات صرف ایک شکایت تک نہیں ہے ۔ اگر متوفی خاتون کے شوہر شکایت واپس لے بھی لیتے ہیں تو بھگدڑ کا واقعہ پیش تو ضرور آیا ہے اورا یک خاتون کی جان چلی گئی ہے جبکہ اس کے بچے کی جان بچنے کی بھی امید کم ہی دکھائی دے رہی ہے ۔ ایسے میں اگر متوفی کے شوہر شکایت واپس لیتے بھی تب بھی پولیس اس معاملے میں کارروائی ضرور کرسکتی ہے ۔ مختلف گوشوں کی جانب سے اس سارے واقعہ کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کردیا گیا ہے ۔ فلمی صنعت کی اپنی سرگرمیاں ہیں اور فلم اداکار فلموں میں ضرور ہیرو ہوتے ہیں لیکن وہ بھی قانون سے بالاتر نہیںہوسکتے ۔ ان کیلئے بھی قانون ہے اور ان پر بھی کئی طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ محض کچھ روپئے کسی کی بھی زندگی کا متبادل نہیں ہوسکتے ۔ اس حقیقت کو سبھی کو تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی ۔
سارے حالات کا استحصال کرنے کی بھی کچھ گوشوں کی جانب سے کوشش کی گئی تھی اور حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اور فلمی صنعت کو حکومت تلنگانہ سے بدظن کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ آج فلمی صنعت کی اہم شخصیتوں نے چیف منسٹر ریونت ریڈی سے ملاقات کی اور حالات کو بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی ۔ جہاں تک آج کی ملاقات کا سوال ہے ریونت ریڈی نے واضح کردیا کہ لا اینڈ آرڈر حکومت کیلئے سب سے اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ بات فلمی صنعت کو بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی شعبہ کو کوئی اضافی مراعات نہیںدی جاسکتیں۔ ویسے بھی فلمی صنعت کو کئی طرح کی مراعات حاصل ہوتی ہیں لیکن لا اینڈ آرڈر کے معاملے میں کسی سے امتیاز نہیںکیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کو جانوں سے کھلواڑ کرنے کا موقع دیا جاسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اداکار جس طرح سے فلموں میںہیروز کا رول ادا کرتے ہوئے لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ کرتے دکھائے جاتے ہیںاسی طرح انہیں حقیقی زندگی میں بھی دوسروں کیلئے مثال پیش کریں۔ فلمی اداکاروں کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑ وں افراد کے آئیڈیل ہوتے ہیں ۔ انہیں عوام میں اپنی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے ایک اچھی اور مثبت مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض کسی فلم کی کامیابی ہی ان کے پیش نظر نہیںرہنی چاہئے ۔ انہیںحقیقی زندگی میں بھی عوام کی بہتری اور ان کی زندگیوں کی حفاظت کو ترجیح دینے کی ضر ورت ہے ۔
اب جبکہ حکومت اورفلمی صنعت کے ذمہ داروں کے مابین ملاقات ہوئی ہے تو سب سے پہلے تو سوشیل میڈیا پر اس تعلق سے چل رہی بحث کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔عوام کے ذہنوں میںالجھن اورسوالات پیدا کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ حکومت نے جہاںاپنا موقف واضح کردیا ہے وہیں فلمی صنعت کے ذمہ داروں کو بھی اس معاملے میں عوام میں بے چینی کی کیفیت کو ختم کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ ہر مسئلہ کا مثبت حل تلاش کرنے کی مثال قائم کرتے ہوئے اس سارے معاملے کو بھی مثبت نوٹ پر ختم کرنا چاہئے اور فریقین کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کرنا چاہئے ۔