حکومت سے اختلاف کا حق

   

اخلاق کا جلتا ہوا گھر دیکھ رہا ہوں
دیکھا نہیں جاتا مگر دیکھ رہا ہوں
ہندوستان میں حالیہ کچھ برسوں میں حکومت سے اختلاف کو ایک طرح سے جرم قرار دیا جانے لگا ہے ۔ جو کوئی حکومت یا اس کے اقدامات یا پالیسیوں سے اختلاف کرے اور اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرے اسے قوم دشمن اور ملک دشمن قرار دینے سے تک بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ سیاسی مخالفین اگر اس طرح کی روش اختیار کرتے ہیں تو کچھ حد تک اس کا جواز ہوسکتا ہے لیکن ملک کا گودی میڈیا بھی اس معاملے میں سب سے آگے نکلتا دکھائی دے رہا ہے ۔ کسی بھی معاملے میں اگر کوئی بھی حکومت یا اس کی پالیسیوں سے اختلاف کرے تو اسے ملک دشمن یا قوم دشمن کا لیبل لگادیا جاتا ہے ۔ میڈیا ٹرائیل کے ذریعہ اسے رسواء کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ اس طرح سے میڈیا اس ملک میں خود کو سیاہ و سپید کا مالک سمجھنے لگا ہے اور ہر معاملے کو ایک مخصوص سوچ و فکر سے دیکھنے اور برتنے کا عادی ہوگیا ہے ۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں حکومت کی رائے سے اختلاف کرنے والوںکو سر عام رسواء کیا گیا ۔ ان کے خلاف گودی میڈیا میں مہم چلائی گئی اور انہیں نت نئے نام دئے گئے ۔ کسی کو خالصتانی قرار دیا گیا تو کسی کو دہشت گرد قرار دیدیا گیا ۔ کسی کو قوم دشمن تو کسی کو ملک دشمن تک قرار دیتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ۔ ملک کی سپریم کورٹ نے تاہم ایک اہم ترین فیصلہ کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ ملک میںہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت اورا س کے فیصلوں سے اختلاف کرے ۔ سپریم کورٹ نے دستور کے دفعہ 370 کی تنسیخ پر تنقید کرنے والے شخص کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ رائے دی ہے ۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ملک کی پولیس فورس کو اس بات کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ دستور ہند نے ہر شہری کو اظہار خیال کی آزادی کا حق دیا ہے اور اس میں حکومت اور اس کے فیصلوں کی مخالفت اور اس پر تنقید کا حق بھی شامل ہے ۔ ملک کی پولیس کو اظہار خیال کی آزادی کے قانون کی اہمیت اور اس کی حیثیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کئی معاملات میں پولیس نے حکومت مخالفین کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں جیل بھیجا ہے ۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر اظہار خیال کی آزادی سلب کرلی جائے اور کسی کو بھی حکومت یا اس کے اقدامات اور پالیسیوں سے اختلافات کا حق چھین لیا جائے تو پھر جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ جمہوریت کی یہی انفرادیت ہے کہ وہ کئی اختلاف رائے رکھنے والوںکو مساوی جگہ فراہم کرتی ہے اور ان کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر کسی کی رائے کو تسلیم کیا جائے یا اسے قبول کیا جائے لیکن کسی کو بھی اپنی رائے کے اظہار سے روکا نہیں جاسکتا ۔ ہندوستان میں بتدریج اس روایت کو تبدیل کیا جانے لگا تھا ۔ حکومت ‘ حکومت کے ذمہ داران یا پھر حکومت کی پالیسیوں اور اس کے اقدامات سے جو کوئی مخالفت کرنے کی جرات کرتا اس کے خلاف ایک محاذ سا کھول دیا جاتا ۔ اس کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں اور ایسا کرنے والوںکو جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ بات یہیں تک محدود نہیںرہتی بلکہ ان کے خلاف سماج میںجو نفرت پیدا کی جاتی ہے وہ سب سے سنگین مسئلہ ہے ۔ گودی میڈیا اس معاملے میںسب سے آگے رہتے ہوئے ایک طرح سے بنیادی حق چھیننے کی کوشش کرتا ہے ۔ ٹی وی چینلس پر بیٹھ کر اظہار خیال کرنے والے اینکرس تو خود اپنے حق کی دہائی دیتے ہیں لیکن وہ دوسروں کا حق چھیننے سے گریز نہیں کرتے ۔ جس طرح سے حکومت مخالفین کے خلاف رسواء کن مہم چلائی جاتی ہے وہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ سپریم کورٹ کی حالیہ رولنگ اور ریمارکس کے بعد انہیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہندوستانی جمہوریت کی یہ شان رہی ہے کہ کسی کی رائے اور اس کے موقف سے اختلاف کے باوجود اس کی ہتک نہیں کی جاتی ۔ مخالفانہ رائے کو اگر قبول نہ بھی کیا جائے تو اس کا احترام کیا جاتا ر ہا ہے ۔ ملک میں اپوزیشن کو عزت و توقیر دی جاتی تھی لیکن اب اس روایت کو تبدیل کردیا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں بھائی چارہ اور رواداری کا خاتمہ ہو رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی روایات سے اجتناب کیا جائے ۔ اختلاف رائے کا احترام کیا جائے ۔ کسی کے خلاف رسواء کن مہم چلانے سے گریز کیا جائے اور ملک کے تمام شہریوں پر صرف ایک سوچ اور صرف ایک نظریہ مسلط کرنے سے گریز کیا جائے ۔