حکومت سے ورون گاندھی کے سوالات

   

ملک میں حکومت سے سوال کرنا اپوزیشن کا کام ہوتا ہے ۔ اپوزیشن کے قائدین حکومت سے کئی مسائل پر مسلسل سوال کرتے ہیں۔ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ سرکاری پالیسیوں میں نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں اور ہر مسئلہ پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ملک کی جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ جہاں برسر اقتدار جماعت کو حکومت کا موقع فراہم کرتی ہے وہیں اپوزیشن کو حکومت پر لگام کسنے کی ذمہ داری بھی تفویض کرتی ہے ۔ ملک میں گذشتہ آٹھ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ حکومت نے طاقت کی زبان اختیار کرلی ہے ۔ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا ہے ۔ ایوان کے اندر یا ایوان کے باہر اپوزیشن کے سوالات کے جواب نہیں دئے جا رہے ہیں۔ حکومت کو تنقیدوںکا نشانہ بنانے والوں کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو قوم مخالف یا غدار قرار دیا جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے جا رہے ہیںاور انہیں جیل بھی بھیجا جا رہا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر کچھ قائدین حکومت پر تنقیدیں جاری رکھتے ہیں تو ان کے خلاف مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن کے طاقتور قائدین کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اس ساری صورتحال میں حکومت کو ایک ایسی الجھن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر شائد اس کی توجہ نہیں تھی ۔ یہ الجھن ہے کہ خود بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ورون گاندھی کے سوالات کی ۔ ورون گاندھی مسلسل اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو نشانہ بنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ تقریبا ہر مسئلہ پر انہوں نے حکومت سے سوال کرنے شروع کردئے ہیں اور حکومت خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہے ۔ حکومت ان سوالات کے جواب دینے کے موقف میں نہیں ہے ۔ یہ سوال حالانکہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ کر رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ حکومت کی نمائندگی کی بجائے اپوزیشن کی نمائندگی کا رول نبھا رہے ہیں۔ ان کے سوالات وہی ہیں جن پر اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن حکومت ان سوالات کا کوئی جواب دینے کوتیار نہیں ہے ۔
ورون گاندھی نے اگنی پتھ اسکیم سے لے کر آٹے ‘ چاول اور شکر پر جی ایس ٹی لاگو کرنے تک کئی مسائل پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے 15 ہزار کروڑ کے صرفہ سے تعمیر کئے گئے بندیل کھنڈ ایکسپریس وے میں شگاف پڑ جانے پر خود بی جے پی حکومت پر کرپشن کے الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے بیروزگاری پر بھی سوال اٹھایا ہے اور یہ تک واضح کیا کہ گذشتہ آٹھ برسوں میں ملک میں جملہ 22 کروڑ نوجوانوں نے روزگار کیلئے درخواست داخل کی تھی لیکن صرف سات لاکھ نوجوانوں کو روزگار حاصل ہوا ہے ۔ یہ سوالات اور اعداد و شمار در اصل اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے جانے تھے ۔ اپوزیشن کے کچھ قائدین اور جماعتوں نے حالانکہ اپنے طور پرا ن سوالات کو اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن چونکہ ورون گاندھی برسر اقتدار بی جے پی سے ہی تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان سوالات کی اہمیت ہوگئی ہے ۔ حالانکہ میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر ان کو موضوع بحث بنانے سے عمدا گریز کیا جا رہا ہے اور غیر اہم و نزاعی مسائل پر ہی بکواس کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ ورون گاندھی اپنے سوالات کے ذریعہ عوام میں ایک طرح سے اپنی شناخت بناتے جا رہے ہیں۔ وہ ایسے مسائل کو اٹھا رہے ہیں جن کا راست عوام سے تعلق ہے ۔ انہوں نے فیول قیمتوں کے مسئلہ پر بھی اظہار خیال کیا تھا اور اپنی ہی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی طرح کے ریمارکس کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا ۔ بی جے پی اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
یہ بات تو تقریبا طئے ہے کہ ابتدائی دور میں اپنے متنازعہ ریمارکس کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والے ورون گاندھی حکومت پر نشانہ لگاتے ہوئے کوئی وزارت یا کرسی حاصل نہیں کرسکتے لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ وہ عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ حالانکہ ابھی ان کے سیاسی منصوبوں اور مستقبل کے لائحہ عمل کے تعلق سے بھی کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا لیکن ان کے سوالات حکومت کیلئے مسائل اور چبھن کا باعث ضرور بن رہے ہیں۔ حکومت دوسری جماعتوں کے قائدین کے خلاف تو کچھ کارروائی کرسکتی ہے لیکن وہ ورون گاندھی کے خلاف کچھ کارروائی بھی کرنے کے موقف میں نہیں ہے اور نہ ان کے سوالات کے جواب دئے جا رہے ہیں۔ تاہم ورون گاندھی اپوزیشن کی ترجمانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔