حکومت کی ترجیحات پرنظرثانی ضروری

   

Ferty9 Clinic


نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ ملک و قوم کو درپیش بنیادی مسائل پر توجہ کرنے اور ان کی یکسوئی کیلئے جامع و مبسوط حکمت عملی بنانے کی بجائے اپنے ایجنڈہ پر عمل کرنے کو ترجیح دے رہی ہے اور اسے عوام کو درپیش بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے ۔ کم از کم حکومت اور اس کے ذمہ داروں کے بیانات سے تو یہی تاثر ملتا ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے گذشتہ دنوں کہا کہ کورونا ٹیکہ اندازی مہم ختم ہونے کے بعد سی اے اے پر عمل آوری کا آغاز کردیا جائیگا ۔ یہ در اصل قوم کو ایک بار پھر بنیادی مسائل سے بھٹکانے کی کوشش ہے اور اس کے ذریعہ بی جے پی اور حکومت دونوں ہی نزاعی اور اختلافی مسائل پر ہی سیاست کرنا چاہتے ہیں جو مناسب نہیں ہوسکتا ۔ ان دنوں ہندوستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے اور حکومت کو ان مسائل پر جامع حکمت عملی اور سبھی کو اعتماد میں لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت ایسا کرنے کی بجائے بالکل ہی مختلف ترجیحات پر کام کر رہی ہے ۔ ملک میں کسانوں کا مسئلہ مسلسل شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ کسان مسلسل احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنے مطالبات کی یکسوئی تک احتجاج ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حکومت ان کے ساتھ بات چیت کرنے اور انہیں اعتماد میںلے کر تعطل ختم کرنے اور ان کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کی بجائے احتجاج کو بدنام کرنے اور احتجاجیوں کی تائید کرنے والے کارکنوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے ۔ حد تویہ ہے کہ کسانوں کی مدد کرنے والے اپوزیشن قائدین اور صحافیوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے اور انہیں بھی غداری جیسے سنگین مقدمات میں پھانس کر جیل بھیجا جا رہا ہے ۔ اسی طرح ایک اور مسئلہ جو سارے ملک کو درپیش ہے اور صرف کسانوں تک محدود نہیں ہے وہ مہنگائی کا ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میںحکومت مسلسل اضافہ کرتی جا رہی ہے ۔ فیول پر کئی طرح کے سرچارچ اور اکسائز ڈیوٹی میںاضافہ کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ کے ذریعہ سرکاری خزانہ کو بھرا جا رہا ہے ۔ مہنگائی نے ہندوستان کے تقریبا ہر عام شہری کی زندگی مشکل کردی ہے ۔
یومیہ اساس پر چند پیسے کے ذریعہ پٹرول 100 روپئے فی لیٹر کے قریب پہونچ گیا ہے ۔ یہ کسی بھی وقت سنچری کو پار کرسکتا ہے ۔ اس پر کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت محض یہ کہتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہی ہے کہ قیمتوں پر قابو کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے ۔ یہ وہی حکمران قائدین ہیں جو 70 روپئے فی لیٹر پٹرول کی قیمت پر سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر تے رہے ہیں اور اب احتجاج کرنے والوں کو ’’ آندولن جیوی ‘‘ قرار دے کر ان کا مضحکہ اڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اسی طرح ملک میں بیروزگاری بھی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ نوجوانوںکو روزگار کا حصول انتہائی مشکل ہوگیا ہے ۔جو روزگار پہلے سے تھے انہیں کورونا وائرس اور پھر لاک ڈاون نے ختم کردیا ہے ۔ لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے ہیں اور حکومت سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ انہیں روزگار فراہم کرنے یا مارکٹوں کی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ کرنے کی بجائے حکومت سی اے اے پر بیان بازی کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ کسان احتجاج کو خالصتانی تحریک قرار دینے میںحکومت جٹ گئی ہے ۔ جو کارکن احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں انہیں نت نئے کیسوں میں پھانسا جا رہا ہے ۔ بحیثیت مجموعی حکومت نے انتہائی آمرانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو غداری قرار دے کر اور مقدمات درج کرکے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس طرح کی کوششیں ہندوستانی جمہوریت کو داغدار اور کھوکھلی کرنے کے مترادف ہیں۔
ہندوستان کو جو مسائل درپیش ان پر حکومت کو توجہ کرنے کی ِضرورت ہے ۔ ملک میں خواتین کی عزت و عفت کو تار تار کرنے کے واقعات عام ہوگئے ہیں ‘ تعلیم کے شعبہ پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ صحت عامہ کیلئے زائد فنڈز فراہم کرنے اور بنیادی انفرا اسٹرکچر کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوںمیں اعتماد بحال کرنے اور روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان بنیادی مسائل پر توجہ کرنے کی بجائے حکومت اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام کو ان میں مصروف رکھناچاہتی ہے تاکہ اس کی ناکامیوں اور حساس مسائل سے عوام کی توجہ ہٹ جائے ۔ اس معاملے میں زر خرید میڈیا بھی حکومت کی پوری مدد کر رہا ہے حالانکہ میڈیا کا کام حقیقی اور بنیادی مسائل کو عوام کے سامنے پہونچانا ہے لیکن ایسا کیا نہیں جا رہا ہے ۔حکومت کو اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرتے ہوئے بنیادی مسائل کو حل کرنا چاہئے ۔