حکومت کی غیر آئینی روش کیخلاف شہریوں کا متحدہ محاذ

   

ملک کی موجودہ ناگفتہ بہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ دستور خطرہ میں ہے ، ملک خطرہ میں ہے ، ایسے قوانین نافذ کئے جارہے ہیںجن سے سارے شہریوں کا چین و سکون درہم برہم ہے ، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ملک میں برسوں سے رہنے والوں کی شہریت کا ثبوت مانگاجارہا ہے اور دستاویزات جیسے ووٹر آئی ڈی ، آدھار کارڈ، پیان کارڈ ،پاسپورٹ وغیرہ جو شہریت کا واضح ثبوت ہیں ان کوشہریت کے ثبوت کیلئے ناکافی قرار دیاجارہا ہے ، یہ دستاویزات تو وہ ہیں جو گنے چنے پڑھے لکھے شہریوں کے پاس ہی ہیںورنہ تخمینی ۷۰ فیصد سے زائد ملک کی اکثریت خط ِغربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے،تعلیم گاہوں تک جن کی رسائی نہیں ہے جن کے ہاں زمین و جائیداد نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو پھر وہ ملکیت کے کوئی سرکاری کاغذات کہاں سے لائیں،اوراپنی شہریت کیسے ثابت کریں ، اس ملک کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ یہاں آبادی کی کثرت ہے ، کثیر تعداد میں آباد نوجوان نسل کی قوت و طاقت اس کا بیش قیمت سرمایہ ہے، دنیا کے بڑے بڑے ممالک اس سے محروم ہیں،ملک و ملت کا تحفظ ملک کی ترقی اور ملت کے عروج کا راز نونہالوں اور نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں پوشیدہ ہے ،اس مقصد کیلئے آبادی کے تناسب سے تعلیم گاہوں کی ضرور ت ہے موجودہ تعلیم گاہیں اس کیلئے ناکافی ہیں، ملک میں قدیم سے جو علمی ادارے وجامعات موجودہیںان میں خاطر خواہ کوئی اضافہ نہیں ہوسکا ہے ،اعلیٰ علوم و فنون کی تعلیم کے ساتھ انسانی بنیادوں پر ان کی تربیت کی شدید ضرورت ہے تاکہ نسل نو انسانیت نوازی کا پیغام لے کر انسانوں کے درمیان مذہب ، زبان ، علاقہ ،تہذیب وکلچر کے اختلا ف کی بناءجو بھید بھائوپیدا کردیا گیا ہے اس کی بیخ کنی کی مہم چلائے اور ملک کو اونچے سے اونچا اٹھائے ،اس وقت غربت و افلاس نے ملک میں ڈیرہ جما لیا ہے ،غربت بھی ایک وجہ ہے جس کی بنا ء۶۰فیصدسے زائد آبادی تعلیم گاہوں کا رخ کرنےسے قاصر ہے ان میں سے کچھ ابتدائی و سطانی تعلیم تک پہنچ پاتی ہے اور کچھ کی فوقانی درجات تک ہی رسائی ہوتی ہے ،بہت کم ایسے غریب افراد ہیں جو یونیورسٹیوں کی صورت دیکھ سکتے ہیں ورنہ یہ اکثر غریب شہریوں کیلئے آسمان سے تارے توڑلانے کے متراد ف ہے ،روزگار کے دروازے بھی حکومت نے بند رکھے ہیں،۳۰ تا ۴۰ فیصد نوجوان شہری جو علم و ہنر رکھتے ہیںوہ بھی ملازمتوں سے محروم ہیں ،غیر تعلیم یافتہ غریب افراد کیلئے تو ملازمت ایک خواب ہے ،ہمارے ملک میں بیرونی ممالک کی کمپنیوں نے کچھ اس کا بھرم رکھ لیا ہے ، کچھ تعلیم یافتہ نوجوان ان سے منسلک رہ کر روزگار پارہے ہیں، ملک کے غریب باسیوںکے لئے علم سے محرومی کی وجہ ان کمپنیوں میں بھی کوئی جگہ نہیں ہے ، نوٹ بندی نے بھی ملک کی معیشت کو بہت متاثر کیا ہے،ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ کالا دھن واپس لانے کے عنوان سے ملک کے عام شہریوں کا کوئی بھلا نہیں ہوسکا، البتہ کالا دھن رکھنے والوں کا سارا سرمایہ وائٹ منی میں تبدیل ہوگیا ہے ،مارکسی کمیونسٹ پارٹی ( سی پی ایم) پولٹ بیورو نے کہا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد نیشنل سیمپل سروے تنظیم کے اعداد و شمار سے یہ پتہ چلتا ہےکہ مودی حکومت کے دور میں بیروزگاری میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ، ۱۵ سے ۲۹ سال کے دیہی نوجوانوں کی بیروزگاری میں ۳ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ،۲۰۱۱ء ۲۰۱۲ ء میں بیروزگاری پانچ فیصد تھی جو بڑھ کر 4.17فیصد ہوگئی ہے ۔اس دوران دیہی خواتین کی بیروزگاری 8.4 فیصد سے بڑھ کر 6.13 فیصدتک پہنچ گئی ہے ۔

بیروزگاری کے اضافہ نے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ کردیا ہے ، بھارتیہ اخبار کے مطابق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ ترین اعداد و شمار تشویشناک ہیں ، سال ۲۰۱۸ ء میں ہر گھنٹے میں ایک بیروزگار نوجوان نے خودکشی کی ہے ، ایک سال میں جملہ 516.34.1 افراد نےاپنے ہاتھوں اپنی جا ن گنوائی ہے ، جن میں 114.92 مرد اور،391.42خواتین شامل ہیں ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ ترین اعداد و شمار میں یہ بات بتائی گئی ہےجو وزارت داخلہ کے تحت آتی ہے کہا گیا ہے کہ 936.12بیروزگار افراد نے 2018 میں خودکشی کی ہے جو جملہ واقعات کا 6.9فیصد ہوتا ہے ۔ ان میں مردبیروزگار687.10اور خواتین بیروزگار 249.2فیصدتھیں۔ سینئر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے جاری اعداد و شمار کے مطابق ، فروری 2019ء میں بے روزگاری کی شرح 2.7فیصدی تک پہنچ گئی ہےجو ستمبر 2016ء کے بعد سب سے زیادہ ہے ‘گذشتہ سال ستمبر میں یہ اعداد و شمار 9.5فیصدی تھے ،ہمارے ملک میں اقتصادی ترقی کے سامنے تیزی سے ابھرتی ہوئی عدم مساوات اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ ملک میں خودروزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں اور دیگر روزگارکے ذرائع بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ لیبربیورو کے اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ آج بھارت دنیا کے سب سے زیادہ بے روزگاروں کا ملک بن گیا ہے ۔معاشی اعتبار سے انسانوں کے درمیان بڑے تفاوت اور امیری و غریبی کے درمیان فرق میں خطرناک حد تک اضافہ سے ملک معاشی مشکلات سے دوچار ہے یہ صورتحال جی ڈی پی کی ترقی کے راستہ میں ہماری بیروزگار ی میں ترقی اور غیر سرکاری اخراجات کا نتیجہ ہے ،لیکن ہمارے ملک کا سرکاری سرمایہ دارانہ نظام ٹھپ ہے ،تمام وسائل مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیںجبکہ زیادہ تر ممالک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔بھارت میں امیروں اور غریبوں کے درمیان زبردست عدم مساوات ہے۔ بھارت کے صرف ایک فیصد امیروں کے پاس ملک کی کل آبادی کا 70 فیصد یعنی 95.3کروڑ لوگوں کے پاس موجود کل دولت کی چار گنا سے بھی زیادہ دولت ہے ۔ یہی نہیں، بھارتی بلینر یز ( ڈالر میں ارب پتی ) کے پاس جتنی املاک ہیں وہ مرکزی حکومت کے ایک سال کے کل بجٹ سے بھی زیادہ ہے ۔ بھارت میں عدم مساوات کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے آکسفیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۶۱ بھارتی بلنیریز کے پاس جتنی املاک ہے وہ خزانہ حکومت ہند کے سال ۲۰۱۸۔۱۹ء کے کل بجٹ (24.42 لاکھ کروڑ روپئے) سے بھی زیادہ ہے ۔ جنسی تشدد اور خواتین کے قتل کے دردناک واقعات میں روزبروز اضافہ ہے، خواتین کے خلاف جرائم کے ناگفتہ بہ حادثات میں اترپردیش کونمایاں مقام حاصل ہے ،ہر جہت سے جائزہ لیا جائے تو بحیثیت مجموعی ملک کی صورتحال ابتری کا شکار ہے،اس پس منظر میں سیکولرحکومت کو کیا کرنا چاہئے تھا ،لیکن وہ کیا کررہی ہے ،یہ سب کیلئے ایک لمحہ فکر ہے ،آزادی کے بعد خاص طور پر ۲۰۱۴ء کے الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی سے ملک کے سیکولر دھارے کو سخت دھکہ لگاہے ، حالا نکہ ملک کے سیکولر کردار و جمہوری اقدار کی حفاظت کیلئے اس کی منصوبہ بندی سیکولر حکومت کا اولین فرض ہے۔این آر سی ، سی اے اے پھر این آر پی کے قوانین کے نفاذ کی تیاری دراصل ملک کے سیکولر ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے ، ملک کے تئیںموجودہ حکومت کے عزائم تشویشناک ہیں، ملک کے سارے شہری ان قوانین کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں،شاہین باغ دہلی ، سبزی باغ پٹنہ ،روشن باغ الہ آباد میں خواتین نے حق کی آواز بلند کرتے ہوئے باطل کے خلاف ایک شمع جلائی تھی جس کی روشنی سارے ملک میں پھیل گئی ہے ، اب خواتین اور مرداصحاب کی صدائے احتجاج کی گونج ملک اور بیرونِ ملک سنی جارہی ہے ، جے این یو، جامعہ ملیہ ، وغیرہ جیسی کئی علمی جامعات کے طلباء وطالبات ان قوانین کے خلاف اٹھ کھڑے ہیں،ان کی تائید میں صرف ملک بھر کے تعلیمی ادارے اور شہری ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک کی یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات اور وہاں کے شہری بھی اپنا احتجاج درج کروارہے ہیں، خوش آئند پہلو یہ ہے کہ یہ سارے احتجاجات دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے منظم کئے جارہے ہیںلیکن افسوس حکومت کی مشنری اور امن و قانون کی حفاظت کے رکھوالے وردی پوش پولیس والے ہی بے قصور شہریوں پر ظلم ڈھارہے ہیں اور ان کے جان و مال اور املاک کے درپے ہیں ،خاص طور پر یو پی کا بہت برا حال ہے ،موجودہ حکومت نے ایسے مسائل کھڑے کئے ہیںجو دستور و قانون کے خلاف ہیں،اس سے اس کا مقصود شہریوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرکےمذہب کی بنیادوں پرشہریوں کوتقسیم کرتے ہوئے اپنے مقاصدکو بروئے کار لانا ہے، اس لئے انہوں نے مذہب کو ڈھال بنایاہے،طلاق ثلاثہ بل، بابری مسجدکا فیصلہ ملک کی اکثریت کو خوش کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا، موجودہ حکومت کا ایجنڈہ انگریزوں کی پالیسی divide and ruleآپس میں پھوٹ ڈالو اور حکومت چلائو کے مطابق محسوس کیا جارہا ہے،لیکن ملک کے سارے شہریوں کو اب احساس ہوگیا ہے ،اس لئے انہوں نے اپنا بھولاسبق ’’ہندو،مسلم ، سکھ ، عیسائی آپس میں ہیں بھائی بھائی‘‘ پھرسے یاد کرلیا ہے اور اب سب کے سب شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ’’ملک بچائو دستور بچائو تحریک‘‘ میں جان پیدا کردی ہے،اس تحریک کو زندہ رکھنے کیلئے عملاً ایک متحدہ محاذ بن چکا ہےجس میں بلالحاظ مذہب ،ملت ،ذات پات ملک کے سارے شہری شریک ہوگئے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو مزید مستحکم کیا جائے اور ایک ایسا بورڈ تشکیل دیا جائے جس میں سب کی نمائندگی ہواور یہ بورڈ ملک کے حالات پر گہری نظر رکھے ،نفرت کو ہوا دینے والی طاقتوں سے وہ ہمیشہ نبردآزما رہے ،اسلام نے انسانی بنیادوں پر اس اتحاد کی حوصلہ افزائی کی ہے ،انسان ہونے کے ناطے چونکہ سارے انسانوں کے حقوق مساوی ہیںاس لئے اللہ سبحانہ نے قرآن پاک میں کئی جگہ’’ساری انسانیت سے ‘‘خطاب کرتے ہوئے ’’یاایہاالناس‘‘ فرمایا ہے ۔ احادیث پاک میں بھی ان بنیادوں کی بڑی رعایت رکھی گئی ہے ،ایک حدیث پاک میں وارد ہے ’’ساری مخلوق ایک طرح سے اللہ سبحانہ کا کنبہ و قبیلہ ہے ‘‘اللہ سبحانہ کو وہ بندے زیادہ محبوب ہیں جو اللہ کی عیال یعنی مخلوق سے حسن سلو ک کرتے ہیں،اسلام کی زرین تعلیم یہ ہے کہ سارے انسان ایک یونٹ ہیں ایک کا درد دوسرے کا درد ایک کا غم دوسرے کا غم اور ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی ہے۔بفضل تعالیٰ اس راز کو ہمارے ملک کے سارے شہریوں نے پالیا ہے۔ حکومت کی غیر آئینی روش کےخلاف شہریوں کا متحدہ محاذ ہی فسطائی طاقتوں کو زیر کرسکتا ہے۔