حکومت کی ناکامیاں اور اپوزیشن

   

Ferty9 Clinic

وہی اندازِ گویائی وہی احساس رسوائی
تری نظروں میں میری بے زبانی رقص کرتی ہے
حکومت کی ناکامیاں اور اپوزیشن
ہندوستان کو آج جن حالات کا سامنا ہے وہ انتہائی مشکل ترین حالات ہیں۔ ایک طرف کورونا وائرس نے تباہی مچائی ہوئی ہے تو اس کی وجہ سے لاگو کئے گئے لاک ڈاون نے خاموشی سے عوام کو بے سہارا کردیا ہے ۔ لاک ڈاون کے اثرات ہنوز باقی ہیں اور یہ مزید کئی مہینوں تک باقی رہنے والے ہیں جن کے نتیجہ میں ملک کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جائیگا ۔ کورونا وائرس کے پھیلاو کی رفتار اب انتہائی شدت اختیار کرگئی ہے اور یہ اندیشے تقویت پا رہے ہیں کہ ہندوستان اب اس وائرس کے معاملے میں کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلے میں پہونچ گیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ معائنوں کی تعداد میں اضافہ کے نتیجہ میں متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ یقینی طور پر معائنے زیادہ ہو رہے ہیں لیکن نتائج بھی غلط نہیں ہیں اور عوام اس موذی وائرس کا شکار ہوئے ہیں اسی لئے رپورٹس مثبت آ رہی ہیں۔ مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومتیں وہ ایک طرح سے کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں یکسر ناکام ہوچکی ہیں اور انہوں نے عوام کو حالات کی مار کھانے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔ حکومت صرف متاثرین اور اموات کے اعداد و شمار جاری کر رہی ہے یا پھر عوام کو مشورے دئے جا رہے ہیں۔ روک تھام کیلئے حکومت کے ہاتھ میں جو اقدامات ہیں وہ بھی بے اثر ثابت ہوچکے ہیں۔ کوئی جامع حکمت عملی کا فقدان ہے ۔ اس کے علاوہ چین کا مسئلہ بھی حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے ۔ سرحد پر کشیدگی اور چین کی در اندازی کے مسئلہ پر حکومت کے ذمہ داروں کے بیانات ہی میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ حکومت اس مسئلہ پر عوام کو زیادہ بہتر اور موثر انداز میں حالات سے واقف نہیں کروا رہی ہے جس کے نتیجہ میں عوام میں ایک طرح کی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ پٹرولیم اشیا کی قیمتوں کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔ عالمی منڈی کی صورتحال کے نام پر حکومت مسلسل تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہے جبکہ تیل کی قیمتیں کم تھیں اس وقت حکومت نے عوام کو راحت دینے کی بجائے اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کردیا تھا ۔
ایک اور مسئلہ مائیگرنٹس کا ہے جو ملک کے مختلف مقامات سے لاکھوں کی تعداد میں اپنی اپنی آبائی ریاستوں کو واپس ہوئے ہیں۔ مقامی سطح پر ان کیلئے روزگار کا حصول انتہائی مشکل ترین مسئلہ ہے ۔ مقامی طور پر انہیں روزگار نہ مل پانے کی وجہ ہی سے انہوں نے نقل مقام کیا تھا اور دوسرے شہروں میں جا کر اپنے اور اپنے افراد خاندان کے پیٹ پالنے کی جدوجہد کر رہے تھے ۔ اب جبکہ کورونا وائرس اور مابعد لاک ڈاون کی وجہ سے یہ لوگ اپنے گھروں کو اور اپنے آبائی شہروں کو واپس ہوگئے ہیں تو وہاں بھی ان کیلئے حصول روزگار کا مسئلہ آسان نہیںہے ۔ ساری صورتحال میں ملک کی جو اپوزیشن جماعتیں ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے وجود کا تک احساس دلانے کی جراء ت تک نہیں کر پا رہی ہیں۔ صرف کانگریس لیڈر راہول گاندھی ہیں جو سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کو استعمال کرتے ہوئے حکومت بلکہ راست وزیر اعظم کو نشانہ بناتے جا رہے ہیں۔ دوسرے اپوزیشن قائدین میں حکومت کو نشانہ بنانے کی جراء ت باقی نہیں رہ گئی ہے اور یہ لوگ صرف اپنے بقا کی فکر میں ہیں۔ یہ لوگ عوام اور عوام کو درپیش مسائل پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے در اصل حکومت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال در اصل ایک صحتمند جمہوریت کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ اس بات کو ملک کی تقریبا تمام ہی اپوزیشن جماعتوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق خود کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے ۔
وقفہ وقفہ سے کمیونسٹ جماعتوں کی جانب سے بھی کوئی بیان دیا جاتا ہے لیکن یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ یہ جماعتیں بھی عوامی مسائل پر جس شدت کے ساتھ جدوجہد کرتی رہی ہیں اب ان میں وہ شدت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت نے ایک طرح سے اپوزیشن جماعتوں کے اطراف بھی ایک جال سا بن دیا ہے ۔ یہ جماعتیں خود اپنے آپ تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان جماعتوں کو اس خول سے باہر آنے کی ضرورت ہے ۔ عوام میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ عوامی مسائل پر جدوجہد کرنے کے موقف میں ہیں اور حکومت سے سوال کرسکتی ہیں۔ عوام کو مسائل پیش آ رہے ہیں ان کی یکسوئی کیلئے وہ حکومتوں پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
مشکل وقت ‘ احتیاط ضروری
کورونا وائرس سارے ملک میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ تلنگانہ میں بھی یہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور سینکڑوں افراد یومیہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف موت منڈلا رہی ہے ۔ ماہرین کے بموجب آئندہ ہفتے اور بھی مشکل ہوسکتے ہیں۔ ان ایام میں کورونا کے پھیلاو میں مزید تیزی اور شدت پیدا ہوسکتی ہے ۔عوام میں اس تعلق سے مختلف اندیشے پیدا ہوگئے ہیں اور خوف کا ماحول ہے ۔ لوگ اپنی اور اپنے افراد خانہ کی خیریت کے تعلق سے فکرمند ہیں۔ دواخانوں کا حال الگ سے ابتر ہوگیا ہے ۔ ایک مریض کو کسی دواخانہ میں جگہ حاصل کرنے کئی گھنٹے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے اور کئی دواخانوں کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ خانگی دواخانوں میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔لاکھوں روپئے مریضوں سے اینٹھے جا رہے ہیں ۔ اس صورتحال میں عام لوگ سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ معمولی سی طبیعت کی خرابی پر بھی مختلف اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ ہر بخار کورونا نہیں ہوسکتا اور کچھ وبائی امراض بھی ہوسکتے ہیں لیکن عوام کو خود کو محفوظ رکھنے کیلئے حد درجہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ نہ خود وہ متاثر ہونے پائیں اور نہ ان کے افراد خانہ اس کی زد میں آنے پائیں۔ ماہرین طب اور ڈاکٹرس کی جانب سے جن احتیاطی تدابیر کی بارہا اپیلیں کی جا رہی ہیں ان کا خیال رکھا جائے ۔ ان پر عمل کیا جائے ۔ قوت مدافعت میں اضافہ کی کوشش کی جائے اور دواخانوں تک جانے کی نوبت ہی نہ آنے پائے ۔ اپنی صحت کا خود خیال رکھتے ہوئے عوام کئی مسائل اور پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں۔