سنگھ پریوار، راجندر کی ڈھال
انٹلیجنس اور سرکاری مشنری ناکام
محمد نعیم وجاہت
سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابات میں ہار جیت عام بات ہے لیکن حضورآباد میں جو زلزلہ آیا اس کے جھٹکے ساری ریاست تلنگانہ میں محسوس کئے گئے۔ تلنگانہ میں بی جے پی اقتدار تو دور کبھی پانچ سے زائد اسمبلی حلقوں پر کامیاب نہیں ہوپائی۔ ایٹالہ راجندر کو وزارت سے برطرف کرنے کے بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے پر پہلے یہ تصور کیا گیا کہ حضورآباد میں کسی کے بھی جیتنے اور شکست سے دوچار ہونے پر ریاست کی سیاست میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ایٹالہ راجندر عوام میں مقبول قائد ہیں اور وہ چھ مرتبہ اسمبلی کیلئے منتخب ہوچکے ہیں۔ 2014ء سے وزارت میں شامل رہے۔ وہ عوام کے سامنے ایک مظلوم کے طور پر پیش ہوئے تاہم حکومت نے اس ضمنی انتخاب کو وقار کا مسئلہ بنالیا اور بہت بڑے انتخابی جنگ کے میدان میں تبدیل کردیا۔ سرکاری مشنری، افرادی طاقت، دولت، شراب کا بیجا استعمال کیا اور ایٹالہ راجندر کو غدار ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بدلے میں اتنی ہی ہمدردی ایٹالہ راجندر کیلئے بڑھتی چلی گئی۔ بھلے ہی ایٹالہ راجندر نے بی جے پی کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا لیکن اصل لڑائی حکومت اور ایٹالہ راجندر کے درمیان رہی۔ چار ماہ تک حکمران جماعت نے عوامی تائید حاصل کرنے کی جتنی بھی کوشش کی وہ سب کی سب ناکام رہی۔ حضورآباد کے نتائج کے بعد چیف منسٹر کے سی آر ، تلنگانہ حکومت اور ٹی آر ایس پارٹی کو اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہوگیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت کے تکبر و گھمنڈ کو شکست ہوئی ہے۔ حضورآباد کے عوام نے حکمرانوں کو آئینہ دِکھایا ہے، من مانی فیصلوں کو بریک لگایا ہے، آسمان پر اُڑنے والے قدم کو زمین پر ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ صرف اس کو ضمنی انتخاب کے نام پر ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت نے ایس سی طبقات کو لبھانے کیلئے ’’دلت بندھو اسکیم‘‘ کا اعلان کیا۔ حضورآباد کے 23 ہزار دلت خاندانوں میں سے 16 ہزار خاندانوں کو اس اسکیم سے فائدہ پہنچایا۔ فی خاندان 10 لاکھ روپئے اُن کے بینک کھاتوں میں جمع کرائے گئے۔ جن گاؤں میں دلتوں کو اس اسکیم سے فائدہ پہنچایا گیا، ان گاؤں میں بھی بی جے پی کو سبقت حاصل ہوئی ہے۔ بڑے پیمانے پر حضورآباد میں ترقیاتی کاموں کی انجام دہی کیلئے کروڑ روپئے خرچ کئے گئے، پھر بھی نتیجہ ٹی آر ایس کے خلاف آیا ۔ ٹی آر ایس قیادت نے انتخابات سے عین قبل گزشتہ انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر مقابلہ کرتے ہوئے 60 ہزار ووٹ حاصل کرنے والے طاقتور قائد کوشک ریڈی کو ٹی آر ایس میں شامل کرلیا۔ بی جے پی کے سینئر قائد سابق وزیر ای پدی ریڈی، تلنگانہ تلگو دیشم پارٹی کے صدر ایل رمنا کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ٹی آر ایس کا موقف طاقتور ہوگیا مگر مقامی عوام نے ایٹالہ راجندر کا مکمل ساتھ دیا۔ قائدین نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی مگر ووٹرس تبدیل نہیں ہوئے۔ ٹی آر ایس کی جانب سے کانگریس اور بی جے پی مل کر مقابلہ کرنے کا جو الزام عائد کیا ہے۔ وہ رائے دہی کا منڈل سطح پر جائزہ لیا جائے تو جھوٹا ثابت ہوتا ہے، کیونکہ گزشتہ انتخابات میں ایٹالہ راجندر نے ٹی آر ایس سے مقابلہ کرتے ہوئے جتنے ووٹ حاصل کئے تھے ، اس کے برابر ہی ووٹ حاصل کئے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب نوٹا سے کم بی جے پی کو ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس مرتبہ بی جے پی کی جیت ہوئی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس نے 60 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے، اس مرتبہ کانگریس کو صرف 3 ہزار ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اگر صحیح طریقہ سے رائے دہی کے تناسب کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ جن منڈلس میں ٹی آر ایس کا موقف مستحکم تھا، وہاں ایٹالہ راجندر کو اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ ٹی آر ایس کے جو ووٹ تھے، وہ بی جے پی کو ٹرانسفر ہوگئے ہیں۔ کانگریس کے جو ووٹ تھے ، وہ زیادہ تر ٹی آر ایس کی جھولی میں پڑے ہیں۔ ٹی آر ایس قیادت نے کانگریس کے طاقتور قائد کوشک ریڈی کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر وہ کانگریس کے ہی ٹکٹ پر مقابلہ کرتے تو جس طرح انہوں نے گزشتہ انتخابات میں 60 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیا تھا۔ اس مرتبہ اس کے نصف یعنی 30 ہزار ووٹ حاصل کرتے تھے۔ یہ بی جے پی کیلئے نقصان دہ اور ٹی آر ایس کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتا تھا۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران ایٹالہ راجندر کے کیڈر کو چھینتے ہوئے انہیں یکا و تنہا کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کیلئے سنگھ پریوار ڈھال بن گئی۔ جس طرح آر ایس ایس نے خاموش کام کیا، اس کا اندازہ لگانے میں انٹلیجنس اور سرکاری مشنری پوری طرح ناکام ہوگئی۔ کمیونسٹ نظریات رکھنے والے ایٹالہ راجندر اپنی سیاسی بقاء کیلئے ضرور بی جے پی میں شامل ہوئے لیکن کہیں بھی انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی یا مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا نام نہیں لیا اور نہ ہی انہوں نے ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ یا ایسے کسی نعرہ کا استعمال کیا جس سے ان کی امیج کو نقصان پہونچا۔ جب کسانوں کے احتجاج کا مسئلہ آیا تو انہوں نے اپنی انتخابی ریالی کیلئے استعمال کی جانے والی گاڑی کا رنگ زعفرانی کو نکال کر ہرا کردیا اور ساتھ ہی انہوں نے کبھی بھی زہر افشانی نہیں کی بلکہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو ہی اجاگر کیا۔ بدلے میں انہیں بی جے پی کے ٹکٹ پر مقابلہ کرنے کے باوجود اقلیتوں کے بھی ووٹ حاصل ہوئے۔ انہوں نے حکومت کی ناکامیوں کو پیش کیا۔ وزراء کی بے بسی، چیف منسٹر کی تانا شاہی اور فلاحی اسکیمات میں پائی جانے والی خامیوں کو ہی موضوع بحث بنایا اور یہ بھی بتایا کہ انہیں کسی بھی وقت جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ بی جے پی ریاست میں ٹی آر ایس کی متبادل بن کر ابھرنے کیلئے جان توڑ کوشش کررہی ہے۔ ایسے میں انہیں ایٹالہ راجندر کی صورت میں ایک طاقتور امیدوار مل گیا جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ دوباک ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی کامیابی کا اثر جی ایچ ایم سی کے انتخابات میں دیکھنے کو ملا۔ حضورآباد ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد ٹی آر ایس اور کانگریس کے علاوہ دوسری جماعتوں سے قائدین کی پھر ایک بار بی جے پی میں شمولیت کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حضورآباد ضمنی انتخاب کے بعد کانگریس پارٹی قائدین کے اختلافات اور گروپ بندیاں پھر ایک مرتبہ روایتی انداز میں منظر عام پر آگئے۔ اے ریونت ریڈی کے صدر بننے کے بعد کانگریس کیڈر میں کچھ جوش و خروش نظر آرہا تھا، مگر حضورآباد میں کانگریس پارٹی کا مایوس کن مظاہرہ رہا ہے جو سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کا متبادل بننے کیلئے کانگریس اور بی جے پی میں دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ دونوں جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں ہی مستقبل کو طئے کرنے میں کارآمد ثابت ہوں گی۔