جانے کِس عالم میں آئیں آنے والے قافلے
سایۂ دیوارِ جاناں جاوداں کرتے چلو
حکومت ۔ کسان بات چیت کی ناکامی
تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کے ساتھ حکومت کی بات چیت کا ایک اور دور ناکام ہوگیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے تو ابھی اس بات چیت کے سلسلہ میں کوئی رائے ظاہر نہیں کی گئی ہے اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ آئندہ دور کی بات چیت 19 جنوری کو ہوگی تاہم کسان یونین کے قائدین کا کہنا ہے کہ بات چیت بالکل ناکام ہوگئی ہے ۔ حکومت اور کسانوں کے مابین اب تک کئی ادوار کی بات چیت ہوئی ہے اور ہر دور میں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ آج جو بات چیت ہوئی تھی وہ اہمیت کی حامل تھی کیونکہ یہ بات چیت سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی چار رکنی کمیٹی کے قیام کے بعد پہلی بات چیت تھی ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ حکومت موجودہ حالات اور اس مسئلہ پر اب تک سپریم کورٹ کی جانب سے کئے گئے ریمارکس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے موقف میں نرمی پیدا کریگی ۔ لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے بات چیت کی کامیابی کیلئے کوئی راہ تلاش کرنے میں سرگرم رول ادا کرے گی تاہم ایسا ہوا نہیںہے ۔ تاحال بات چیت سے جو تاثرات ملے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے ابھی تک اس مسئلہ پر سخت گیر موقف ہی اختیار کیا ہوا ہے اور کوئی لچک پیدا نہیں کی ہے ۔ جہاں تک کسان یونینوں کا سوال ہے انہوں نے ابتداء ہی سے واضح کردیا تھا کہ وہ تینوں متنازعہ قوانین سے دستبرداری سے کم کسی بھی بات پر تیار نہیں ہونگے ۔ حکومت کو چاہے جتنے دور کی بات چیت کرنی ہو وہ کرے لیکن کسانوں کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ ان قوانین سے دستبرداری اختیار کی جائے ۔ حکومت نے دستبرداری سے انکار کرتے ہوئے کسانوں کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے چھوڑ دیا تھا اور اب سپریم کورٹ نے زرعی قوانین پر عمل کو روکتے ہوئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ ان حالات میں یہ امید کی جا رہی تھی کہ حکومت بھی سپریم کورٹ کی رولنگ کو دیکھتے ہوئے اپنے موقف میں لچک پیدا کریگی ۔ کسانوں سے ان کی بنیادی شکایات پر بات چیت ہوگی اور کوئی ایسا راستہ نکالنے کی کوشش کرے گی جو کسانوں کیلئے قابل قبول ہوگا تاکہ احتجاج کو ختم کیا جاسکے ۔
آج کی بات چیت کے نتائج نے اس امید کو ختم کردیا ہے ۔ حالاکہ ایک اور دور کی بات چیت کرنے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے لیکن جب تک حکومت کے موقف میں کوئی نرمی یا لچک پیدا نہیں ہوگی اور غیر مشروط بات چیت نہیں ہوگی اس وقت تک اس مسئلہ کا حل دریافت کیا جانا مشکل ہی نظر آتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ بات چیت کو کامیاب بنانے کیلئے معاون نہیں کہا جاسکتا کیونکہ حکومت بات چیت میں بھی سیاست کرتی نظر آ رہی ہے اور ایک جال بچھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں کسانوں کو حکومت پھانسنا چاہتی ہے ۔ جس طرح ابتداء میں کسانوں کو اور ان کے احتجاج کو بدنام کرنے کی کوشش ہوئی تھی اور وہ ناکام ہوئی تھی اسی طرح کی کوشش اب کسانوں کو بات چیت کے جال میں پھانسنے کی ہو رہی ہے ۔ یہ رویہ مثبت نہیں کہا جاسکتا ۔ منفی ہتھکنڈوں سے کسی بھی مسئلہ کا کوئی خوشگوار حل دریافت نہیں کیا جاسکتا ۔ کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ کسانوں سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے حقوق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے مفادات اور مستقبل کا خیال کرتے ہوئے انہیں اعتماد میں لیا جانا چاہئے ۔ کسانوں کے مفادات پر کسی طرح کا سمجھوتہ کئے بغیر تعطل کو ختم کیا جانا چاہئے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب منفی سوچ کو ترک کیا جائے ۔ سیاسی ہتھکنڈے اختیار کرنے سے گریز کیا جائے اور فی الواقعی بات چیت کو کامیاب بنانے اور تعطل کو ختم کرنے کی نیت سے کوئی پیشرفت کی جائے ۔
کسانوں اور حکومت کے مابین جو تعطل پیدا ہوا ہے وہ کسی کیلئے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ اس تعطل سے ملک کی معیشت پر اثر ہوسکتا ہے اور ملک کی معاشی حالت پہلے ہی سے کوئی بہتر نہیں ہے ۔ جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور کسانوں کی اور ان کے مفادات کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کسانوں کو کارپوریٹس کی اجارہ داری کے تعلق سے جو اندیشے ہیں وہ بے بنیاد ہرگز نہیں کہے جاسکتے ۔ حکومت کو کارپوریٹس کے مفادات کا خیال کرنے کی بجائے کسانوں کے مفادات کا خیال کرنا چاہئے اور کسانوں کے مفادات کا خیال کرنا در اصل ملک کے عوام کے حق میں بہتر ہوگا ۔ اس مسئلہ پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو مذاکرات کیلئے آگے آنا چاہئے ۔
