ہم اگر بارش کی روداد سنانے لگ جائیں
ایک دو سال نہیں کتنے زمانے لگ جائیں
ساری ریاست تلنگانہ اور ملک کی مختلف ریاستوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ تلنگانہ میں بھی بارشیں لگاتار برس رہی ہیں اور گریٹر حیدرآباد کے حدود میں بھی بارش توقع سے زیادہ ریکارڈ کی جا رہی ہے ۔ ماہ اگسٹ کے ابتدائی دس دنوں میں تین مواقع پر 10 سنٹی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے ۔ لگاتار بارشوں کی وجہ سے عام زندگی درہم برہم ہو رہی ہے اور عوام کو مشکلات کا سامنا الگ سے کرنا پڑ رہا ہے ۔ حیدرآباد ہندوستان میں تیزی کے ساتھ ترقی کرتا ہوا شہر ہے ۔ حیدرآباد کا حدود اربعہ بھی لگاتار بڑھتا جا رہا ہے ۔ اسی وجہ سے گریٹر حیدرآباد کہا جا رہا ہے ۔ لگاتار نئی آبادیاں بس رہی ہیں اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ تاہم تقریبا ہر سال محسوس کیا جاتا ہے کہ معمول سے قدرے زیادہ بھی اگر بارش ریکارڈ کی جائے تو پھر سارے شہر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ سڑکیں جھیلوں اور تالابوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ پانی کے بہاؤ کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں ۔ گاڑیاں فیل ہوجاتی ہیں ۔ کبھی تو لوگ بھی پانی میں بہہ جاتے ہیں ۔ کبھی مکانات وغیرہ منہدم ہوکر اموات ہوتی ہیں تو کبھی کچھ اور ہی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔ گذشتہ دنوں سے جاری بارش کے دوران دیکھا گیا ہے کہ حیدرآباد جتنی تیزی سے ترقی کرتا جا رہا ہے اتنی تیزی سے بنیادی سہولیات کی فراہمی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے ۔ منظم اور منصوبہ بند انداز میں ایسے منصوبے نہیں بنائے جا رہے ہیں جو دیرپا اثرات کے حامل ہوں۔ سابقہ کے سی آر دور حکومت میں بھی حیدرآباد کو استنبول بنانے یا دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کے طرز پر ترقی دینے کے دعوے کئے گئے تھے ۔ کئی بار اعلانات کئے گئے تھے لیکن جب بارش ہوتی ہے تو سارے اعلانات کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ ریاست میں دس سال بی آر ایس حکومت میں رہی لیکن حیدرآباد کی بنیادی ضروریات کو اس قدر موثر انداز میں پورا نہیں کیا گیا جتنا کیا جانا چاہئے تھا ۔ اب ریاست میں کانگریس حکومت کی تشکیل کے بعد بھی حیدرآباد کی ترقی کیلئے اقدامات کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور کچھ منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔
چیف منسٹر ریونت ریڈی نے حیدرآباد کی ترقی کیلئے ایک سے زائد مواقع پر جائزہ اجلاس منعقد کئے اور عہدیداروں کو منصوبے بنانے کی ہدایت دی ہے ۔ چیف منسٹر کا کہنا ہے کہ موسی ندی کی بحالی کا جو پراجیکٹ ہے وہ پورا ہوجائے تو شہر میں بارش کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ تالابوں اور جھیلوں کو بحال کرنے کیلے حیڈرا کی تشکیل عمل میں لائی گئی تھی ۔ حیڈرا کی جانب سے کئی مقامات پر تالابوں اور جھیلوں کی اراضیات کو بازیاب بھی کروایا گیا ہے ۔ تاہم تاحال اس کے اثرات پوری طرح سے محسوس نہیں کئے گئے ہیں۔ مزید بہت کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر موسی ریور فرنٹ پراجیکٹ سے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو سب سے پہلے اسی پراجیکٹ کو مکمل کیا جانا چاہئے ۔ حیڈرا کیلئے بھی ایک جامع منصوبہ تیار کرتے ہوئے نالوں اور ڈرینج نظام کو موثر بنانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ حیدرآباد ریاست کا دارالحکومت ہے ۔ کئی بین الاقوامی اور عالمی ادارے حیدرآباد کی جانب رخ کر رہے ہیں اور اپنے دفاتر وغیرہ قائم کر رہے ہیں۔ بنیادی بلدی ضروریات کی عدم تکمیل ان کے منصوبوں میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے اور شہر کی ترقی پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے ۔ کسی بھی شہر کی ترقی محض بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کا نام نہیں ہوسکتا بلکہ عوام کو سہولیات اور بنیادی ضروریات کی تکمیل ہی اصل ترقی کی بنیاد ہتی ہے اور اس معاملے میں حیدرآباد کو لگاتار نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ اس سلسلہ کو اب روکا جانا چاہئے ۔
پرانے شہر کے تعلق سے بھی کئی بار دعوے کئے گئے لیکن صورتحال ہر بارش میں واضح ہوجاتی ہے ۔ کچھ کام ضرور شروع کئے جاتے ہیں لیکن ان کے نتائج وہ نہیں برآمد ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ چیف منسٹر چونکہ شہر کی ترقی کیلئے لگاتار دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ جامع منصوبہ بندی پر توجہ کریں۔ مستقبل کی ضروریات کے مطابق کام کیا جائے ۔ محض اڈھاک بنیادوں پر کام چلاؤ انداز اختیار کیا جائے تو مسائل کی مستقل یکسوئی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ حیدرآباد میں تمام بنیادی ضروریات کی تکمیل ہی شہر کو عالمی درجہ کا شہر بناسکتی ہے اور اس کیلئے لگاتار اور مسلسل اقدامات کرنے ضروری ہونگے ۔