حیدرآباد میں امن و ترقی کیلئے ووٹرس آج فیصلہ کرینگے

   

فرقہ پرست ایجنڈہ سے عوام ناراض، سیکولرازم اور خوشحالی ٹی آر ایس سے ممکن
حیدرآباد: گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کیلئے آج رائے دہی کا دن ہے اور موجودہ صورتحال میں حیدرآباد کے شہریوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حق رائے دہی سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے حیدرآباد میں امن اور مذہبی رواداری کی روایات کا تحفظ کریں۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے ایجنڈہ کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور حیدرآباد کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب بلدیہ کے انتخابات کو قومی چناؤ کی طرح اہمیت حاصل ہوگئی۔ بی جے پی نے ساری طاقت جھونک دی اور انتخابی فائدہ کیلئے وزیراعظم نریندر مودی نے حیدرآباد کا ویکسن کے نام پر دورہ کیا ۔ انتخابی مہم سے عوام میں خوف کا ماحول پیدا کرتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئیں جسے رائے دہندوں نے مسترد کردیا۔ بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں نے بنیادی مسائل کے بجائے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ترجیح دی اور ان کا مقصد کسی بھی صورت میں بلدیہ پر قبضہ کرنا ہے۔ حیدرآباد کی ترقی و خوشحالی گزشتہ کئی برسوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اگر رائے دہندے حق رائے دہی سے استفادہ میں کوتاہی کریں گے تو حیدرآباد پر فرقہ پرستی کا سایہ گہرا ہوسکتا ہے۔ سماج کے تمام فکرمند شہریوں اور تنظیموں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے رائے دہی میں حصہ لیں اور حیدرآباد کی ترقی کو یقینی بنانے والی ٹی آر ایس کے حق میں فیصلہ دیں تاکہ آئندہ پانچ برسوں تک امن کے ساتھ ترقی کا سلسلہ جاری رہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گزشستہ 7 برسوں میں ٹی آر ایس نے گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ۔ اس کے علاوہ نئی صنعتوں کے قیام کے ذریعہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے ۔ اگر فرقہ پرست طاقتوں کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو دنیا بھر میں حیدرآباد کا برانڈ امیج متاثر ہوجائے گا اور ترقی اور خوشحالی سے دوبارہ پسماندگی اور فرقہ پرستی عوام کا مقدر بن جائے گا۔ رائے دہندوں کے لئے یکم ڈسمبر اپنے شعور کے مظاہرے اور حیدرآباد کے تحفظ کے لئے فیصلہ کا دن ہے ۔ عوام کو رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا جو حیدرآباد کا نام تبدیل کرنے کے علاوہ ہندو مسلم سیاست کے ذریعہ نفرت کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی راما راؤ شہر کی ہمہ جہتی ترقی پر توجہ مرکوز کرچکے ہیں۔ سیلاب کی صورتحال میں متاثرہ خاندانوں کی مدد کے ذریعہ کے سی آر حکومت نے دیگر ریاستوں کے لئے مثال قائم کی ہے۔ مرکز کی جانب سے ایک روپیہ بھی بطور امداد جاری نہیں کیا گیا لیکن حکومت نے اپنے طور پر متاثرین میں 640 کروڑ روپئے تقسیم کئے اور باقی متاثرین کو انتخابات کے بعد رقم حاصل ہوجائے گی۔ گریٹر حیدرآباد کے رائے دہندوں کو امن ، ترقی اور فرقہ پرستی اورپسماندگی کے درمیان فیصلہ کرنا ہوگا۔