حیدرآباد میں وبائی امراض

   

Ferty9 Clinic

ہمیں تو رونقِ زنداں بنادیا تم نے
چمن میں صبحِ بہاراں کی بات کون کرے
حیدرآباد میں وبائی امراض
ویسے تو گذشتہ دو سال سے سارے ملک میں لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اب جبکہ سارے ملک میں اور ہماری اپنی ریاست تلنگانہ میں بھی کورونا کی دوسری لہر کے اثرات کم سے کم ہوگئے ہیں اور قدرے راحت مل رہی تھی لیکن ڈینگو اور دوسرے وبائی امراض نے ایک بار پھر ساری ریاست میں اور خاص طور پر شہر حیدرآباد میں عوام کو ایک بار پھر پریشان کر رکھا ہے ۔ شہر میں ہر دواخانے میں وبائی امراض کا شکار افراد کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔ سرکاری دواخانے ہوں یا پھر خانگی دواخانے ہوں وہاں ایسے مریض کثیر تعداد میں پہونچ رہے ہیں اور متاثر ہیں۔ ڈینگو ہو یا ملیریا ہو ‘ تیز بخار ہو یا پھر اعضاء شکنی ہو ‘ سردرد ہو یا پھر سردی کھانسی وغیرہ ہو بچے ہوں یا بوڑھے ہوں ‘ جوان ہوں یا معمر افراد ہوں مرد ہوں یا خواتین ہوں سبھی ان وبائی امراض سے بری طرح متاثر ہیں۔ حکومت کی جانب سے ادویات کی فراہمی کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وبائی امراض سے نمٹنے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور سرکاری محکمہ جات کی ناکامی اور لاپرواہی کے نتیجہ ہی میں یہ وبائی امراض تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں اور عوام کو اس کی وجہ سے مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ شہر میں ہر محلہ اور ہر محلے میں تقریبا ہر گھر وبائی امراض سے متاثر ہے ۔ عوامی نمائندوں اور حکومت کی جانب سے اس تعلق سے سنگین غفلت برتی جا رہی ہے ۔ ان وبائی امراض نے پہلے ہی کورونا کی مار کئی مہینوں تک جھیلنے والے عوام کو اور بھی پریشان کر رکھا ہے ۔ ادویات کی قیمتیں ہوں یا معائنوں کی فیس ہو ‘ ڈاکٹرس کی فیس ہو یا پھر دواخانوں کے اخراجات ہوں ان کی وجہ سے بھی عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ شہر کے عوام کی اکثریت خانگی دواخانوں میں ہونے والے اخراجات کی ادائیگی کے موقف میں نہیں ہے لیکن امراض کی وجہ سے وہ قرض لینے اور ان طبی اخراجات کی پابجائی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وبائی امراض کی روک تھام کے معاملے میں حکومت کے جو اقدامات اب تک دیکھنے میں آئے ہیں وہ محض دکھاوا اور ناکافی ہیں۔
وبائی امراض ویسے تو تقریبا ہر سال موسم برسات میں پیدا ہوتے ہیں لیکن اس بار ان کا کچھ زیادہ ہی اثر دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ ان وبائی امراض کی ایک بنیادی وجہ سے شہر میں ہر سمت گندگی ہے ۔ کہیں کچرے کی نکاسی عمل میں نہیں آ رہی ہے تو کہیں ابلتے ہوئے ڈرینیج کے پانی کی وجہ سے مشکلات ہیں ۔ کہیں بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں ہے تو کہیں ڈرینیج کی صفائی کرکے نکالا گیا ملبہ ہے ۔ اس ملبہ کی صفائی ایسا لگتا ہے کہ سرکاری ڈکشنری میں کہیں درج ہی نہیں ہے ۔ جہاں کہیں مین ہولس یا ڈرینیج وغیرہ صاف کی جاتی ہے اس کی مٹی کو وہیں گلی میں یا سڑک پر ڈال دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے گندگی اور تعفن پھیلتے ہوئے امراض کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ شہر میں اسکولس ہوں یا کالجس ہوں ‘ مساجد ہوں یا منادر ہوں ‘ دوسری عبادتگاہیں ہوں یا مذہبی مقامات ہوں سرکاری دواخانے ہوں یا پھر کمیونٹی ہالس ہوں سبھی کے قریب کچرے کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔ کئی کئی دن تک ان کی صفائی نہیں ہوتی ۔ ان کی وجہ سے سڑکیں تک خراب ہوجاتی ہیں۔ اس کے باوجود بلدیہ اور اس کے ذمہ داران کی جانب سے اس کی صفائی کے انتظامات میں غفلت اور لاپرواہی برتی جاتی ہے ۔ جب بات پرانے شہر کی آجاتی ہے تب تو لاپرواہی اور غفلت تک ہی بات نہیں رہ جاتی بلکہ یہ عمدا نظر انداز کرنے تک بھی پہونچ جاتی ہے ۔ بلدیہ کے ذمہ داران ہوں یا حکومت یا عوام کے نمائندے سبھی کو اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلہ کی یکسوئی ہوسکے ۔
اب جبکہ حکومت کی جانب سے ریاست میں تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا ہے ۔ اسکولس اور کالجس میں طلبا کی حاضری میں بتدریج اضافہ ہونے لگا ہے ایسے میں اسکولوں کے قریب بھی کچرے کے ڈھیر دکھائی دے رہے ہیں۔ تقریبا دو سال سے کورونا کی مار سہنے والے عوام کو حکومت کی جانب سے اس طرح نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ ریاستی حکومت ہو یا پھر سرکاری عہدیدار ہوں سبھی کو اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔عوام کو وبائی امراض سے نجات دلانے کی ضرورت ہے ۔ شہر میں صفائی پر خصوصی توجہ دینے کی بلکہ ایک باضابطہ مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام قدرے راحت محسوس کرسکیں۔