حیدرآباد کی خستہ حال عمارتیں، ممبئی جیسی صورت حال کا خدشہ

   

حیدرآباد ۔ 23 جولائی (سیاست نیوز) چار سو سے زائد سال قدیم شہر حیدرآباد میں درجنوں ایسی قدیم عمارتیں موجود ہیں جن کی تعمیر تقریباً کئی دہے قبل ہوئی ہے اور یہ عمارتیں اب خستہ حال ہو چکی ہیں جو کہ موسمِ برسات کی تاب نہ لاکر کسی بھی لمحہ ناگہانی حادثے کا شکار ہو سکتی ہیں ۔ رواں ہفتہ سیتا پھل منڈی میں پیش آیا حادثہ ہنوز حیدرآبادی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے جہاں ایک 14 ماہ کا شیرخوار بچہ عمارت کی چھت منہدم ہونے سے فوت ہوگیا اور اگر جی ایچ ایم سی کے حکام اس حادثے کو ایک انتباہ کے طور پر قبول نہیں کرتے ہیں تو پھر حیدرآباد بھی ممبئی کی طرح ناگہانی واقعات کا شہر بن جائے گا۔ شہر حیدرآباد کی بیشتر قدیم عمارتیں مٹی اور گارے سے بنائی گئی ہیں جو کہ خستہ حال ہونے کے علاوہ موسم برسات میں کسی بھی وقت کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہو سکتی ہیں اور اگر جی ایچ ایم سی اس معاملے میں چشم پوشی اختیار کرتا ہے تو پھر حیدرآباد میں کئی ناگہانی واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ حیدرآباد کے علاوہ سکندرآباد کے علاوہ سنٹر زون میں بھی کئی ایسی عمارتوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے جو کہ خستہ حال ہیں جہاں کسی بھی لمحہ ممبئی کی طرح ناگہانی واقعہ رونما ہو سکتا ہے جیسا کہ ممبئی میں ایک عمارت کے منہدم ہونے سے 12 افراد موت کی نیند سو گئے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ پختہ اور نئی عمارتوں میں رہنے والے بھی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کے پڑوس میں موجود قدیم اور خستہ حال عمارت کسی بھی لمحہ حادثے کا شکار ہوسکتی ہے جس کا ان پر بھی اثر ہوگا۔ خستہ حال عمارتوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے حالانکہ جی ایچ ایم سی کی جانب سے عمارتوں کی نشاندہی کرنے کے علاوہ ہنگامی اور ترجیحات کی بنیاد پر کئی عمارتوں کو منہدم کرنے کی کارروائی بھی کی جارہی ہے لیکن 2018 میں 434 خستہ حال عمارتوں کی نشاندہی کی گئی تھی جبکہ 2019 میں خستہ حال عمارتوں کی تعداد میں مزید 331 عمارتوں کا اضافہ ہوچکا ہے اور اس طرح اب دونوں شہروں میں خستہ حال عمارتوں کی تعداد 765 ہوچکی ہے ۔ جن عمارتوں کی خستہ حالی پر انہیں فوراً منہدم کرنا چاہیے انہیں منہدم کیا جارہا ہے جبکہ جن عمارتوں کو آہگ پاشی کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے ان کی مرمت کی جا رہی ہے ۔دونوں شہروں کے مختلف علاقوں میں خستہ حال عمارتوں کی جو نشاندہی کی گئی ہے ان کی تعداد 765 ہے ان میں 167 عمارتوں کو تاحال منہدم کر دیا گیا ہے۔ خیریت آباد میں سب سے زیادہ خستہ حال عمارتیں ہیں جن کی تعداد 202 ہے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر گوشہ محل کا ہے جہاں خستہ حال عمارتوں کی تعداد 104 ہے۔ یہ وہ دو علاقے ہیں جہاں نظام کے عہد میں کئی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں لیکن اب یہ عمارتیں عوام کے لیے جانی اور مالی نقصان کی وجہ بن سکتی ہیں ۔ خستہ حال عمارتوں کی فہرست میں چار مینار تیسرے نمبر پر ہے جہاں 122 ایسی عمارتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ خستہ حال عمارتیں ہیں ۔
اس کے علاوہ ایل بی نگر میں خستہ حال عمارتوں کی تعداد 22 ،کٹ پلی اور سری لنگم پلی میں خستہ حال عمارتوں کی تعداد بالترتیب 7اور 9 ہے – خستہ حال عمارتوںکو منہدم کرنے کی کارروائی میں جہاں جی ایچ ایم سی مشغول ہے وہیں حیدرآبادی عوام کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ خستہ حال عمارتوں میں زندگی بسر کرنے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے علاوہ مقامی سیاسی لیڈروں اور حکومتوں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہوئے ان سے تعاون بھی حاصل کریں تاکہ شہر کے کسی محلے میں ناگہانی حادثہ پیش آنے سے قبل ہی زندگیوں کو جانی اور مالی نقصان سے محفوظ بنانے کو یقینی بنایا جا سکے۔