نظام دور حکومت میں شہر کو روشن کرنے کا کارنامہ
محمود علی خان
حیدرآباد 22 ڈسمبر : حیدرآباد کے ’’چار کھنڈل‘‘ کے پیچھے کی دلچسپ تاریخ معلوم ہوئی ہے۔ وہ لال ٹین جس نے نظام کے دور میں شہر کو روشن کیا تھا۔ آغاپورہ کے بہت سے خاندانوں میں ’’چار کھنڈل‘‘ کی اصطلاح کو ناگوار نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ یہ ان کے لئے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ اس علاقہ کا نام ’’چار کھنڈیل‘‘ ان چار لال ٹینوں سے نکلا جو کبھی سنگم پر لٹکتی تھیں۔ ’’قندیل‘‘ لال تین کے لئے اردو کا لفظ ہے جو رفتہ رفتہ ’’قندیل‘‘ میں تبدیل ہوا۔ اردو میں چار عدد ’’چار‘‘ نے ’’چارکھنڈل‘‘ کی اصطلاح کو جنم دیا۔ یہ لال ٹین رات کے وقت جنکشن اور آس پاس کی سڑکوں کو روشن کرتی تھی۔ بچپن میں ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ایک دوست کو طعنہ دیا ہوگا جس نے عینک لگاکر ’’چرکھنڈل‘‘ کو دو آنکھوں اور دو چشمے کل چار کے طور پر بیان کیا ہوگا۔ اس کے باوجود ’’چارکھنڈل‘‘ کی اصطلاح آغاپورہ میں رہنے والے متعدد خاندانوں کے لئے کوئی جارحانہ نام نہیں ہے کیوں کہ اس کا ان کے لئے ایک تاریخی حوالہ ہے۔ یہاں کے علاقہ کا نام یعنی ’’چار کھنڈل‘‘ ان چار لال ٹینوں سے ماخوذ ہے جو کبھی سنگم پر لٹکتی تھیں۔ نظام کے دور میں حکام نے سڑکوں کو روشن کرنے کے لئے شہر کے اہم موڑ پر لال ٹینیں لٹکائی تھیں۔ اس کے بعد مقامی میونسپلٹی کے ایک عملہ کو شام کو لال ٹین روشن کرنے کا کام سونپا گیا۔ تفویض کردہ شخص سائیکل پر مختلف علاقوں میں گھومتا اور مشعل (مشال) کا استعمال کرتے ہوئے لال ٹین روشن کرتا تھا۔ ہر رہائشی کلسٹر میں شام کو کام کرنے کے لئے ایک آدمی ہوتا تھا۔ نظام دور حکومت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور سڑکوں اور کھمبوں پر بجلی کی لائٹیں لگائی گئیں۔ پرانے شہر حیدرآباد میں ایک مینار مسجد جنکشن، ایم جے مارکٹ جنکشن، الاسکا جنکشن، پرانا پل موڑ اور رہائشی علاقوں کے اہم مقامات پر لال ٹینیں لگائی گئیں۔ اگرچہ لال ٹین غائب ہوچکی تھیں لیکن کچھ عرصہ پہلے تک پرانے شہر کے کچھ علاقوں میں کھوٹ سے بنے کھمبے لازم و ملزوم رہے جب مقامی رہنماؤں نے اسے توڑ کر اسکراپ میں فروخت کردیا۔ اگرچہ روٹری پر موجود چار لال ٹینیں غائب ہوچکی ہیں جو اب بھی اس جگہ موجود ہیں۔ لیکن حکام نے وہاں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے چار سرویلنس کیمرے نصب کئے ہیں، اگرچہ جنکشن پر کوئی لال ٹین نہیں لیکن اس علاقہ کا نام برقرار ہے۔