خاندانِ آصفیہ کی دنیا بھر میں شہرترعایا پروری بے مثال

   

پروین کمال
افسوس سال نو کی شروعات ایک انتہائی دردناک سانحہ سے ہوئی کہ آصفیہ خاندان کے آٹھویں جانشین محترم نواب میر برکت علی خاں نے داعی اجل کو لبیک کہا، یہ خبر تمام ہندوستانیوں کیلئے غم و الم کا لمحہ تھی جس کے نقوش برسوں دِلوں پر کندہ رہیں گے۔ مرحوم کا جسد خاکی جب حیدرآباد پہنچا تو شہر کی زمین نے ابدی نیند سوئے ہوئے آخری نظام کو باہیں پھیلاکر یوں اپنی گود میں سمیٹ لیا جیسے کوئی اپنے لخت جگر کو والہانہ بھینج لیتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں عوام نے جنازے میں جو شرکت کی وہ آصفیہ خاندان سے ان کی دلی محبت اور عزت کا ایک بہترین نمونہ ہے جو بھلایا نہیں جائے گا۔ آصفیہ خاندان کب اور کیسے شروع ہوا، یہ جاننے کیلئے ہمیں ماضی کے دھندلکوں کو ہٹاکر تاریخ کے جھروکوں سے گزشتہ200 برسوں سے زائد اس عہد پر ایک طائرانہ نظر ڈالنی چاہئے تب ماضی بعید سامنے آئے گا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مغل دور کے چھٹے بادشاہ اورنگ زیب 1687ء میں حیدرآباد کے عظیم الشان و ناقابل تسخیر قلعہ گولکنڈہ کو فتح کرنے کے ارادے سے حیدرآباد آئے تھے، لیکن آٹھ ماہ تک محاصرہ کرنے کے بعد بھی حیرت ہے کہ فوج قلعے میں داخل ہونے میں ناکام رہی۔ آخرکار کچھ سازشی تراکیب سے بہرصورت مغل فوج قلعے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی اور قبضہ کرلیا گیا۔ یوں بادشاۂ وقت قلی قطب شاہ قید کرلئے گئے اور اس طرح قطب شاہی دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اب اورنگ زیب کے سامنے ایک مسئلہ آن کھڑا ہوا کہ جنوبی ہند کا نظم و نسق کس کے ہاتھ میں دیا جائے۔ انہیں کسی ایسے شخص کی تلاشی تھی جو قابل اور ایماندار بھی ہو۔ اس کام کیلئے انہوں نے مغل فوج میں صوبیدار کی حیثیت سے کام کرنے والے شخص ’’قمرالدین علی خاں‘‘ کا انتخاب کیا اور انہیں ’’نظام الملک‘‘ کا خطاب بھی عطا کیا گیا۔ یہ وہی شخصیت ہے جو آج تک ’’آصف جاہ اول‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آصف جاہی سلسلے کا آغاز ہوا پھر جب مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے آثار نظر آنے لگے تو قمرالدین کے ذہن میں ایک خیال گردش کرنے لگا کہ کس طرح دکن پر قبضہ کیا جائے لیکن اس کیلئے سامان حرب اور طاقت کی ضرورت تھی جو اُن کے پاس نہیں تھی چنانچہ اپنا منصوبہ پورا کرنے کیلئے وہ ایک بزرگ ہستی شیخ نظام الدین اورنگ آبادی ؒکے در پر پہنچے اور عرض مدعا بیان کیا۔ وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آگے سے سات روٹیاں اٹھائیں اور قمرالدین کو کھانے کیلئے دیا۔ کھانے کے بعد بزرگ نے اپنی دستار سے ایک ٹکڑا پھاڑ کر قمرالدین کے سر پر باندھ دیا اور کہا ’’جا قسمت آزمائی کر‘‘ وہ واپس آئے اور اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ دکن پر حملہ آور ہوئے اور فتح پائی۔ کچھ عرصہ بعد پورے دکن کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور نظام الملک آصف جاہ کے نام سے تخت نشین ہوئے۔ اس کامیابی میں دراصل ان کا عزم بھی شامل تھا۔ انسان اگر عزمِ مصمم کرلے تو منزلیں خود چل کر سامنے آجاتی ہیں چنانچہ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ اپنے عزم کی طاقت پر ہی تخت شاہی تک پہنچے، ورنہ کہاں ایک صوبیدار اور کہاں تخت شاہی اور خاص بات یہ کہ یہ سلسلہ سات پشتوں تک باقی رہا اور ہمیشہ ’’ابن نظام، ابن نظام‘‘ کے نام سے اس خاندان کی شہرت دنیا بھر میں ہوئی۔ یکے کے بعد دیگرے سات بادشاہ گر رہے جو ایک ورلڈ ریکارڈ سے کم نہیں، لیکن تاریخی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی دور میں اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ چلی اور خونی رشتے ہونے کے باوجود بھائی نے بھائی کو قتل کروادیا یعنی دولت اور اقتدار کی ہوس نے انہیں اندھا کردیا تھا، حالانکہ خون کی سرخی، رشتوں کی حساسیت اور پاکیزگی آج بھی انسانی وجود میں موجود ہے، مگر خود غرضی کی دبیز چادر اس پر پڑچکی ہے اور تمام احساسات اور جذبات اس کے نیچے دب کر رہ گئے ہیں، اس بے راہ روی کے باوجود بھی اس خاندان میں سات پشتوں تک حکومت باقی رہی، اس کی وجہ یہ ہوگی غالباً ابتداء میں جو کچھ ہوا، وہ بعد میں آنے والے سلاطین نے نہیں دہرایا اور آصفیہ خاندان کی حکومت 224 برسوں تک قائم رہی۔ دکن جیسی ہیروں کی سرزمین پر جہاں کوہ نور ہیرے نے آنکھیں کھولیں، اس پر صدیوں تک حکومت کیا، غرض آصف جاہی حکومت کا جب تذکرہ چل رہا ہو تو اس خاندان کے ساتویں اور آخری نظام میر عثمان علی خاں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ انہوں نے ملک کیلئے بہت ساری خدمات انجام دیں، سلطنت آصفیہ کو اتنا عروج بخشا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ وقت کے نباض تھے، سیاسی بساط پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ رعایا کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرتے تھے، کئی علمی اور ادبی ادارے قائم کئے، خاص طور پر اُردو زبان کی ترقی کیلئے بہت کام کیا۔ اُردو زبان کو وہ اپنی سلطنت کا عظیم اثاثہ سمجھتے تھے۔ اسی لئے سرکاری سطح پر اس کو مقام دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں میڈیسن کی تعلیم بھی اُردو میں ہوا کرتی تھی۔ کئی ایک جامعات قائم کئے۔ سنہ 1914ء میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا جو آج ایک صدی سے زائد عرصہ مضبوط و مستحکم کھڑی ہوئی ہے اور اس طویل عرصے میں کتنے ہی طلبہ اس کی چھت کے نیچے علم کی پیاس بجھاتے رہے اور بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کیں اور دیارِ غیر میں بھی اپنی سرزمین کا سر بلند کررہے ہیں۔ یہ خطہ ماضی میں علمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے جس کا اثر اس جدید دور میں بھی اتنا ہی ہے، جتنا زمانہ قدیم میں تھا۔ گویا دکن علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ نواب عثمان علی خاں کو اپنے پوتے مکرم جاہ سے کتنی محبت تھی، اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ انہیں اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے اور یہی ہوا۔ سال 1967ء میں انہوں نے مکرم جاہ کی آٹھویں نظام کی حیثیت سے تاجپوشی کی تقریب رکھی۔ تقریب کے آخر میں ایک قابل ذکر بات یہ ہوئی کہ مکرم جاہ کے والد اعظم جاہ کو اپنے بیٹے کو مودبانہ انداز میں سلامی دینا تھی۔ انہوں نے یہ عمل کتنے مضبوط دل کے ساتھ کیا ہوگا، یہ ان ہی کا حصہ تھا کیونکہ ایک باپ اپنے بیٹے کے آگے گردن خم کئے ہوئے سلامی دینے والے انداز میں جھک رہا ہو، انتہائی بے عزتی اور شرمندگی کا باعث ہوتا ہے لیکن شاہی فرمان اور شاہی آداب اپنی جگہ اٹل ہوتے ہیں۔ غرض حیدرآباد دکن اس حوالے سے بھی بہت شہرت رکھتا ہے کہ اس سرزمین کے رہنے والوں میں جتنا وطن پر ستی کا جذبہ ہے، وہ کہیں اور نہیں ملتا۔ نئی نسل البتہ جدیدیت کی طرف مائل ہے پھر بھی ماضی کی پرچھائیاں آج بھی ان پر سایہ فگن ہیں اور یہ ایک سچائی ہے کہ جو نسلیں دیارِغیر میں مستقل قیام کرچکی ہیں۔ وہ بھی اپنے آباء و اجداد کے تہذیبی ورثے کو سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔ یہ سب کچھ اس مشرقی تہذیب کا اثر ہے جو قطب شاہی اور آصفیہ خاندانوں نے آنے والی نسلوں کے خمیر میں ہیروں کی طرح جڑ دیا ہے۔ ماضی کا یہ سرمایہ صدیوں تک باقی رہے گا۔ ان سلاطین دکن کیلئے تحریر کا یہ گلدستہ ہے۔ بحر عقیدت اور بحریار۔