گلشن پرست ہیں ہمیں قید مقام کیا
جس شاخِ گل کو چاہا نشیمن بنالیا
ملک بھر میں ایک نیا رجحان سامنے آ رہا ہے ۔ کئی خاندانوں میں میاں ۔ بیوی کے اختلافات جان لیوا حملوںاور انسانی جانوں کے اتلاف کا سبب بن رہے ہیں۔ بچوں کو بھی حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بھی موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ کہیں لیو ان ریلیشن شپ میں ایک پارٹنر دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار کر نعش کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے فرج میں بند کر رہا ہے تو کہیںکوئی بیوی اپنے شوہر کو عاشق کے ساتھ ہلاک کرتے ہوئے اس کی نعش کے ٹکڑے کر رہی ہے اور اسے سمنٹ کی مدد سے بیاریل میں چھپایا جا رہا ہے ۔ کہیںبیوی کے کردار پر شک و شبہ کرتے ہوئے معصوم بچوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے ۔ کہیں بیوی اور بچوں کا اجتماعی قتل کیا جا رہا ہے ۔ ساری صورتحال انتہائی شرمناک اور افسوسناک کہی جاسکتی ہے ۔ ہندوستان جیسے ملک میں اس طرح کے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں۔ اس طرح کے واقعات ہمارے سماج کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں لوگ ایک دوسرے سے تعلق کو اہمیت دیا کرتے تھے ۔ میاں بیوی کا رشتہ انتہائی پاکیزہ اور محبت بھرا مضبوط رشتہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔ ہمارے یہاں میاں بیوی کی محبت اور ایک دوسرے سے اٹوٹ وابستگی کے بھی بے شمار واقعات موجود ہیں۔ اولاد کیلئے والدین کی جانب سے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح اولاد بھی والدین کیلئے ہر ممکن جدوجہد کرنے سے گریز نہیں کرتی تھی ۔ ایسے معاشرہ اور ماحول نے اچانک ہی جو تبدیلی محسوس کی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ ہمارے معاشرہ میں جو روایات اور اقدار رہی ہیں ان کو پامال کردیا گیا ہے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ سماج میں جو برائیاں پیدا ہوئی ہیں وہ اب اپنے اثرات دکھانے لگی ہیں اور ان کے نتیجہ میں ناجائز تعلقات ‘ لیو ان ریلیشن شپ ‘ ایک سے زائد پارٹنرس کے ساتھ تعلقات اور ڈیٹنگ کے کلچر نے ہمارے معاشرہ کو تباہی کی سمت لا دیا ہے ۔ سماج کھوکھلا ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ روایات اور اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ چھوٹے اور بڑوں کا ادب اور پاس و لحاظ ختم ہونے لگا ہے ۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اور اس کا سدباب کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ یہ ہمارے سماج کا ایک ناسور بنتا چلا جا رہا ہے ۔
ترقی کے سفر میں خاص طور پر نوجوان نسل جس طرح کی برائیوں کا شکار ہوکر رہ گئی ہے اس سے معاشرہ کی بنیادیں کھوکھلی ہونے لگی ہیں۔ سب کچھ مادیت اور مادہ پرستی پر مبنی ہوگیا ہے ۔ مغربی دنیا سے جو مہم عورت کے حقوق کیلئے شروع ہوئی تھی اس نے صحیح سمت پیشرفت کرنے کی بجائے میراجسم ۔ میری مرضی جیسی لعنت کو فروغ دیا ہے ۔ دنیا کے ہر مذہب نے اور خاص طور پر ہندوستان میں پائے جانے والے تمام مذاہب نے شادی اور عورت و مرد کے تعلقات کو انتہائی موثر انداز میں اور معزز و معتبر انداز میں عوام کیلئے پیش کیا تھا ۔ان روایات کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ اب شادی کے بغیر مرد و زن کا اختلاط مسائل کا سبب بن رہا ہے اور شادی کو ایک مسئلے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ آزادانہ زندگی گذارنے کے پرکشش نعرہ کی آڑ میں بھی خواتین کا استحصال ہو رہا ہے اور کچھ معاملات میںخواتین بھی اس بگاڑ کی وجہ سے حدود کو پھلانگنے لگی ہیں۔ ہندوستان کبھی اس طرح کی روایات کی آماجگاہ نہیں رہا تھا ۔ ہمارا ملک ہمیشہ سے رشتوں کے تقدس کو برقرار رکھنے والا ملک رہا ہے ۔ صدیوں سے ہماری ایک تہذیب اور تمدن رہا ہے ۔ اس کو بڑی حد تک پامال کردیا گیا ہے اور اسی کا نتیجہ آج یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ قتل و خون سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ صرف جسمانی حیثیت کو مقدم رکھا جا رہا ہے اور رشتوں کے تقدس کو سمجھنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس کو جتنا جلدی ختم کیا جائے اتنا ہمارے لئے بہتر ہوگا ۔ اس معاملے میں جتنی تاخیر ہوگی ہمارے سماج کو اس کی اتنی ہی بھاری قیمت چکانی پڑے گی جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ۔
میڈیا کی آزادی کے اس دور میں جس طرح سے حالات کو بدلا گیا ہے وہ قابل تشویش دکھائی دینے لگا ہے ۔ ہمارے معاشرہ میں جو لعنتیں سرائیت کرتی چلی گئی ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو بھی اس طرح کے معاملات کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ ایک حد کا تعین کرتے ہوئے ہر ایک کو اس کا پابند بنانا چاہئے ۔ سماج کو کھوکھلا ہونے سے بچانے کیلئے سماجی اداروں اور تنظیموں کو بھی اس معاملے میں اپنا سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماج میں اخلاقیات اور اقدار کو فروغ دینے والے پروگرامس شروع کئے جانے چاہئیں ۔ نوجوان نسل کو کھوکھلی چکاچوند سے دور رکھتے ہوئے اخلاقیات و اقدار اور روایات کی پاسداری سکھانے کی ضرورت ہے ۔ہندوستان جیسے ملک میں اس طرح کے واقعات سارے سماج کیلئے شرمناک ہے اور ان کا جتنا جلد سدباب ہوسکے ہم سب کیلئے بہتر ہوگا ۔
اترپردیش میں کرپٹ حکومت
بی جے پی اقتدار والی ریاست اترپردیش میں بدعنوان اور کرپٹ حکومت کام کر رہی ہے ۔ یہ الزام خود بی جے پی کے رکن اسمبلی نند کشور نے عائد کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اترپردیش میں اب تک جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیںسب سے زیادہ کرپٹ اور بدعنوان حکومت یوگی کی ہے اور اس کیلئے ریاست کے عہدیدار اور خاص طور پر چیف سکریٹری ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف سکریٹری اور دوسرے عہدیدار چیف منسٹر کو گمراہ کر رہے ہیں اور شائد ان پر کچھ جادو ٹونا بھی کردیا گیا ہے ۔ چونکہ یہ الزام خود بی جے پی رکن اسمبلی نے عائد کیا ہے اس لئے ان الزامات کی تفصیلی جانچ ہونی چاہئے ۔ ان الزامات کو محض الزامات قرار دیتے ہوئے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اگر کوئی اپوزیشن رکن اسمبلی بھی اس طرح کے الزام عائد کرے تو جانچ توا ن کی بھی ہونی چاہئے تاہم اب معاملہ خود برسر اقتدار جماعت کے رکن اسمبلی کا ہے ۔ ایسے میں تمام الزامات کی غیر جانبداری سے جانچ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن بھی اس طرح کے الزامات عائد کرتی رہی ہے ۔ ساری تحقیقات کے بعد حقائق کو اترپردیش کے عوام کے سامنے لانے میں کوئی پس و پیش نہیں ہونی چاہئے ۔