نیویارک۔ سعودی عربیہ سے تعلق رکھنے والی اقلیتی شیعہ طبقے کے ایک شخص کو 13سال کی عمر میں گرفتار کیاگیاتھا اس کو پھانسی کی سزا نہیں دی جائے گی اور وہ 2022تک رہا کردیاجائے گا‘
سعودی عربیہ کے ایک عہدیدار نے اتوار کے روز زیر التوا ء پھانسی کی سزا کے خبروں کے پیش نظر رائٹرس کے نمائندے کو یہ بات بتائی ہے۔
مرتضی قریریس جس کو 2014ستمبر میں گرفتار کیاگیاتھا‘ مذکورہ عہدیدار کے مطابق اس کو گرفتاری کے بعد کے چار سال ملاکر بارہ سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے اور اس میں چار سال عمر کی وجہہ سے کم کردئے گئے ہیں۔
سزاپر اپیل کی گئی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدیدار نے بتایا کہ ”اس کو پھانسی کی سزا نہیں دی جائے گی“۔
اسی مہینے میں دائیں بازو کے گروپس جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی شامل ہے نے یہ خبر دی تھا کہ سعودی پبلک پراسکیوٹر نے قریریسی کے لئے اس کے سلسلے وار جرائم پر سزائے موت کی مانگ کی ہے جس وہ واقعات بھی شامل ہیں جو دس سال کی عمر میں انجام دئے گئے ہیں۔
پچھلے سال اکٹوبر میں صحافی جمال خشوگی کے قتل اور دائیں بازو کی خاتون کارکن کو محروس رکھنے کے واقعات جس پر اب بھی مقدمہ چلنے کی وجہہ سے انسانی حقوق کے ریکارٹ کے پیش نظر ریاض بین الاقوامی برداری کے نگاہوں میں ہیں۔
پارلیمنٹ میں قریرسی کے امکانی پھانسی کو روکنے کے لئے بحث کے بعد چہارشنبہ کے روز اسڑیا نے کہاکہ وہ ویانا میں واقعہ سعودی کی امداد سے چل رہے مذہبی سنٹر کو بندکردئے۔ماہ اپریل میں مملک نے 37کادہشت گردی کے جرم میں سرقلم کردیاتھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چیف نے کہاکہ ان میں سے زیادہ تر شیعہ ہے جن کے ساتھ شفافیت کے ساتھ سنوائی نہیں ہوئی ہے اور ان میں سے کم سے کم تین سزا کے وقت نابالغ تھے۔
اسی ماہ کے دوران ایمنسٹی نے اپنی ویب سائیڈ پر جاری بیان میں کہاتھا کہ قریریسی کے ساتھ تفتیش کے دوران اذیتیں دی گئی ہیں۔
سعودی عربیہ نے اذیتیں پہنچانے سے انکار کیااو رکہاکہ ہمارے پاس سیاسی محروسین نہیں ہیں۔
ایسٹرن صوبہ کے شیعہ کمیونٹی جہاں سے قریرسی کاتعلق ہے کہ 2011کے اوائل میں کشیدگی کا مرکز بن گیاتھا جہاں پر قدمت پسندانہ جارجیت کو ختم کرنے کے اصلاحات کے نام پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
شیعہ طبقے کے ساتھ کسی قسم کے امتیازی سلوک سے سعودی عربیہ نے انکار کیا او رکہاکہ کچھ شیعہ مظاہرہین اور حملہ جو شیعہ طبقے کی جانب سے کئے گئے ہیں وہ ریاض کے روایتی دشمن تہران کے اشاروں پر ہوئے ہیں‘
حالانکہ مقامی کارکنوں کا کہناہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے