خطبہ غیر عربی میں دینا مکروہ ہے

   

سوال: ۱۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جمعہ کے خطبئہ اولیٰ میں عربی کے ساتھ اردو تقریر کی جاتی ہے۔ منبر پر اردو میں اس طرح کا بیان شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
۲۔ نماز جمعہ و سنن و نوافل کے بعد حضور سرورکائنات ﷺ پر درود و سلام پڑھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں عربی کے سوا دوسری زبان میں خطبہ دینا خلاف سنت اور مکروہ ہے۔ اگر پڑھنے والا عربی پر قادر نہ ہو تو بوجہ عجز دوسری زبان میں (عجز ختم ہونے تک ) پڑھنا جائز رکھا گیا ہے۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد اول باب آداب الصلاۃ میں ہے وشرطا عجزہ وعلی ھذا الخلاف الخطبۃ وجمیع أذکار الصلاۃ۔ اسی جگہ ہے قید القراء ۃ بالعجز لأن الاصح رجوعہ الی قولھما وعلیہ الفتوی۔ ردالمحتار میں ہے (قولہ وشرطا عجزہ ) ای عن التکبیر با لعربیۃ …وفی الہدایۃ وشرح المجمع وعلیہ الاعتماد۔ ابتداء اسلام میں جبکہ حکومتِ اسلامی وسعت پارہی تھی اور کئی ممالک عجم فتح ہوچکے تھے اور وہاں جمعہ قائم کیا گیا تو باوجود مقامی زبان پر قدرت رکھنے کے عربی کے سوا مقامی زبان میں خطبہ دینا کہیں ثابت نہیں حالانکہ اُس وقت اسکی شدید ضرورت تھی۔
۲۔ نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا جائز ہے اور بہ تعمیل حکم الٰہی ،،یٰٓایھا الذین اٰمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیماً‘‘ باعث اجر و ثواب ہے۔
فقط واللّٰہ اعلم بالصواب