عالم اسلام کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان 2017 سے چلی آرہی کشیدگی کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ خلیج عرب اور مسلم ملکوں میں یکجہتی اور سلامتی کو اہمیت دیتے ہوئے قطر کے لیے سعودی عرب نے اپنی بری ، بحری ، فضائی سرحدوں کو کھول کر ایک اہم قدم اٹھایا ہے ۔ سعودی عرب کے تاریخی شہر العلا میں منعقدہ خلیجی تعاون کونسل کی تاریخی چوٹی کانفرنس نے واقعی عالم عرب کے لیے ایک اہم تاریخ رقم کی ہے ۔ سعودی عرب کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ترکی نے کہا کہ اس طرح کی تبدیلیاں خوش آئند ہیں ۔ مصر نے بھی کہا کہ وہ سعودی عرب کے بعد قطر کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائے گا ۔
سعودی عرب اور قطر کو قریب کرنے کے لیے کئی مہینوں سے کوششیں جاری تھیں ۔ امریکہ کے بشمول کئی ممالک خاص کر کویت نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے قطر پر لگائی گئی پابندیاں ہٹانے کے لیے سعودی عرب کو کامیاب ترغیب دی ۔ گذشتہ ساڑھے 3 سال سے قطر پر معاشی پابندیاں تھیں ۔ جس سے نہ صرف قطر کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کئی خلیجی ممالک کے باہمی اتحاد کو بھی دھکہ پہونچ رہا تھا ۔ خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک نے چوٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے مضبوط اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ علاقہ میں سیکوریٹی ، خوشحالی اور استحکام کو ترجیح دی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ، ایسے میں عالم عرب کا باہمی اتحاد ایک نئی طاقت اور خوشحالی کی راہوں کو کشادہ کرے گا ۔ مسلم دنیا کو جو مسائل درپیش ہیں ۔ ایسے میں مسلم ملکوں خاص کر عرب اتحاد کی سخت ضرورت ہے ۔ قطر اور چار عرب ملکوں کے درمیان مصالحت کے پیش نظر ہی کانفرنس میں اعلامیہ پر دستخط کی گئی ۔ العلا اعلامیہ کو عالم عرب کے لیے ایک مضبوط راہ بنا کر استحکام و ترقی کو یقینی بنایا جائے تو خطہ کے عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی ۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خلیجی تعاون کونسل کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عرب خطہ کے ساتھ مسلم دنیا کے مسائل کا احاطہ کیا ۔ درپیش آزمائشوں کی وجہ سے جو رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں ۔
انہیں دور کرنے کے لیے عرب باہمی اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ العلا اعلامیہ میں چند موضوعات ایسے بھی ہیں جن پر فی الحال گریز کرنا چاہئے ۔ اعلامیہ میں ایران کے نیوکلیر اور بالسٹک میزائیل کے پروگرام اور تخریب کاری اور تباہی منصوبوں سے لاحق خطرات کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اس بارے میں مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں ۔ سعودی عرب کا مصر کے بارے میں موقف عین اس وقت تبدیل ہوا جب اسرائیل کے ساتھ خلیجی ملکوں کے تعلقات استوار ہوئے ہیں ۔ امریکہ نے جب سے خلیجی ملکوں میں اپنی مداخلت یا اثر و رسوخ بڑھایا ہے ، سعودی عرب کے بشمول کئی عرب ملکوں نے اپنی روایتی پالیسیوں کو تبدیل کیا ہے یا تبدیلی کا اشارہ دیا ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو قائم کرنا ہی عالم عرب کے لیے بڑی تبدیلی ہے ۔ اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ امریکہ ہو یا اسرائیل اپنے مفادات کے بغیر کسی بھی دوسرے ملک کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ ایران کے معاملہ کو لے کر امریکہ اور اسرائیل کی جو پالیسیاں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ قطر کے ساتھ بھی گذشتہ ساڑھے 3 سال کے دوران جو کچھ کیا گیا اس کو قطری عوام بھی جلد فراموش نہیں کریں گے کیوں کہ پابندیوں کے دوران قطر کی معیشت کو شدید ضرب پہونچی تھی ۔ اب سعودی عرب سمیت تمام ممالک قطر کو ہونے والے نقصانات کی پابجائی کس صورت میں کریں گے یہ غور طلب ہے ۔ قطر کے ساتھ نرمی اور دوستی کا عرب ملکوں نے جو مظاہرہ کیا ہے وہ امریکہ کی بدولت ہی ہے کیوں کہ قطر اس خطے میں امریکی فوج کے سب سے بڑے ٹھکانے کی میزبانی کرتا ہے ۔۔
