خلیج میں بڑھتی کشیدگی خطرناک

   

ہیں ہماری ہی طرح وہ بھی پریشاں شائد
اب نظر آتا نہیں خوابِ پریشاں کوئی
خلیج میں بڑھتی کشیدگی خطرناک
ایسا لگتا ہے کہ خلیج کو ایک بار پھر جنگ کی آگ میں جھونکنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے اور اس پر عمل آوری کا آغاز بھی کردیا گیا ہے ۔ امریکہ اور ایران کے مابین مختلف مسائل پر کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے اور کسی طرح کی کارروائی کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے نیوکلئیر معاہدہ سے دستبرداری کے بعد سے کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ حالانکہ ایران بارہا کہہ رہا ہے کہ اگر امریکہ تحدیدات کو ختم کرتا ہے تو بات چیت کی جاسکتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور ڈونالڈ ٹرمپ نے بات چیت نہ کرنے اور علاقہ کو ایک بار پھر جنگ کی آگ میں جھونکنے کا تہئیہ کرلیا ہے ۔ گذشتہ مہینے ایران نے ایک امریکی ڈرون طیارہ کو مارگرایا تھا اورا س وقت صورتحال انتہائی دھماکو ہوگئی تھی ۔ بعد میں یہ تک انکشاف ہوا کہ اس ڈرون کو مار گرائے جانے پر امریکی صدر نے ایران پر فضائی حملوں کا حکم بھی دیدیا تھا ۔ اس کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی تھیں لیکن لمحہ آخر میں انہوں نے اپنے منصوبہ کو روک دیا اورکسی طرح کی کارروائی نہیں کی گئی ۔ اس واقعہ کے بعد سے ہی دونوں ملکوں کے مابین کسی نہ کسی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ درمیان میں برطانیہ نے ایک ایرانی آئیل ٹینکر کو ضبط کرتے ہوئے اس آگ میں مزید تیل ڈالنے کا کام کیا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ کا الزام ہے کہ ایران بین الاقوامی تحدیدات عائد کرتے ہوئے شام کو غیر قانونی طور پر تیل منتقل کر رہا تھا اسی لئے یہ ٹینکر ضبط کرلیا گیا ۔ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے ۔ مسلسل دھمکیوں اور جوابی دھمکیوں نے علاقہ کا ماحول انتہائی کشیدہ بنادیا ہے اور یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ امریکہ خلیج فارس پر ایک اور جنگ مسلط کرنے کا تہئیہ کرچکا ہے اور اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو عالمی سطح پر صورتحال انتہائی تشویش ناک ہوسکتی ہے ۔ امریکہ اور اس کے حواری برطانیہ کو شائد اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ جنگ کے اثرات اور نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ وہ صرف اپنے ناپاک عزائم اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانا چاہتے ہیں۔
اس دوران امریکہ نے آج اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک ایرانی ڈرون کو بھی مارگرایا ہے جو ایک امریکی بحری جہاز کو نشانہ بنانے کے قریب پہونچ چکا تھا ۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ امریکی بحری جہاز یو ایس ایس باکسر آبنائے ہرمز میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ایران نے اسے ایک ڈرون کے ذریعہ نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی ۔ یہ ڈرون اس بحری جہاز کے 1000 میٹر کے قریب تک پہونچ گیا تھا لیکن اس کو مارگرادیا گیا ہے ۔ علاقہ میں ایران کے خلاف امریکہ کی یہ پہلی معلنہ فوجی کارروائی ہے اور اس کے نتیجہ میں حالات اچانک ہی دھماکو ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کے تیور بھی یہی اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ پوری طرح سے تیاری کے بعد ایران کو فوجی کارروائی کا نشانہ بناسکتا ہے ۔ یہ فیصلہ شائد امریکہ نے کرلیا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرکے رہیگا تاہم اس کیلئے وہ مناسب وقت کا منتظر دکھائی دیتا ہے اور اپنی تیاریوں کو پایہ تکمیل تک پہونچا رہا ہے ۔ ایران کے نیوکلئیر پروگرام کو بنیاد بناکر امریکہ مسلسل ایران کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے ۔ اس نے ایران کے خلاف سخت ترین معاشی تحدیدات عائد کی ہے اس کے باوجود ایران کسی دباو کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے اور اس پر امریکہ اور اس کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ چراغ پا ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر ایران کو سبق سکھانے کا منصوبہ رکھتے ہیں اوراس کیلئے حالات کو بگاڑنے اور ان کا استحصال کرنے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے ۔
خلیج کی کشیدگی اگر اور بڑھتی ہے اور اگر علاقہ پر امریکہ کی جانب سے ایک اور جنگ مسلط کردی جاتی ہے تو یہ انتہائی دھماکو ہوسکتی ہے اور اس کے اثرات و نتائج بھی دوسروں کیلئے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ سارے علاقہ میں ماحول بگڑ سکتا ہے اور جو تباہی ہوگی اس کا نشانہ علاقہ کے عوام ہی ہونگے ۔ امریکہ یا اس کے حواری جو دور بیٹھے حالات کوبگاڑنے کی وجہ بن رہے ہیں وہ اس جنگ کی آگ سے محفوظ رہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اثرات اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر علاقہ پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ امریکہ کو خود اس منصوبے سے باز رہنے کی ضرورت ہے اور علاقہ میں امریکہ کے حلیف جو ممالک ہیں انہیں بھی اس تعلق سے حرکت میں آتے ہوئے امریکہ پر اثر انداز ہونا چاہئے ۔ عالمی سطح پر تمام امن پسند ممالک اور اقوام متحدہ کو بھی اس معاملہ میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا ۔