ابوزہیر سید زبیرھاشمی نظامی
نام : عثمان، والدکانام : عفان،کنیت : ابو عبد اﷲ
آپ ص کی تاریخ ِ شہادت: ۱۸؍ذوالحجۃ الحرام ۳۵ ہجری
آپ ص تیسرے خلیفئہ رسول اﷲ ا ہیں، آپ صکا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد ِمناف پر رسول اﷲ ا سے ملتاہے ۔ آپ ص کی والدہ کا نام اروی بنت کُریز ہے اور نانی ام حکیم البیضاء بنت عبد المطلب ۔ ان کی نانی حضرت نبی اکرم ا کی سگی پھوپھی تھیں ۔
ولادت : حضرت عثمان بن عفان ص کی ولادت عام الفیل کے تقریباً چھ سال بعد ۵۷۶ء میں ہوئی اس طرح وہ حضور نبی اکرم ا سے چھ سال چھوٹے تھے آپؓ کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زمانئہ جاہلیت میں ہی لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا ۔چنانچہ حضور نبی اکرم ا نے بھی آپؓ کو وحی الٰہی لکھنے پر مامور کیا ہے اسی طرح آپؓ کاشمار کاتبان ِوحی الٰہی میں ہوتاہے ،بہت زیادہ نیک فطرت تھے، قبل ِاسلام آپ کی زندگی میں بھی اپنے دامن کوآلودگیوں سے دور رکھے۔ شرم وحیا آپؓ کے اعلیٰ وارفع اخلاق کا طرئہ امتیاز تھا اسی لئے تمام مسلمانان ِعالم’’کامل الحیاء والایمان‘‘ کے مبارک الفاظ حضرت عثمان بن عفانصکیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
حضرت سیدنا عثمان بن عفان ص جوانی میں اہل قریش ہی کی طرح تجارت کا پیشہ اختیار کیا ، آپؓ اپنی دیانت اور صداقت کی وجہ سے تجارت میں بہت زیادہ کامیابی حاصل کئے ، اور ساتھ ہی ساتھ آپؓ بہترین شاعر بھی تھے آپؓ مکہ مکرمہ کے معاشرے میں ایک ممتاز ،معزز،اور دولتمند تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ تمام لوگ آپؓ کو ’’غنی‘‘ کہکر پکارا کرتے تھے ۔
حضرت سیدنا عثمان ؓکا شمارسابقون الأولون، عشرئہ مبشرہ {یعنی وہ دس صحابہ جن کو حضور ا دنیا میں ہی جنتی ہونے کی خوشخبری سنادیئے} اور ان اکابر صحابہ میں ہوتا ہے جن سے رسول اﷲ ا تمام زندگی خوش رہے ۔ حضر ت ابوبکرؓ سے آپؓ کے خاص مراسم تھے، آپؓ ہی کی کوشش پر انہوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت سیدنا عثمان ؓبعثت ِمصطفی ا کے آغاز کے ساتھ ہی رسول اکرم ا کی دعوت پر لبیک کہا ہے اور عمر بھر اپنی جان ، مال ، دولت اور سب کچھ اسلام کی خدمت میں پیش کردیا خلیفئہ سوم کا ہی قول ہے ’’میں اسلام قبول کرنے والے چار میں چوتھاہوں‘‘۔مجھ سے پیشتر حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور حضرت زید بن حارث ث اسلام قبول کئے ۔
ذوالنورین کہنے کی وجہ: حضرت سیدناعثمان صکو ذوالنورین {دونوروالے } کہنے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکر م ا نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲتعالی عنہا کا عقد حضرت عثمان بن عفان ص سے کیا ہے ۔ یہ عقد اتنا بابرکت تھا کہ مکہ مکرمہ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ بہترین جوڑا اگر کسی نے دیکھا ہے وہ حضرت رقیہ اور ان کے شوہرحضرت عثمان بن عفان رضی اﷲتعالی عنہما کاہیں ۔بعثت کے پانچویں سال حبشہ کو ہجرت کرنے والوں میں حضرت عثمان اور انکی زوجہ حضرت رقیہ رضی اﷲتعالی عنہماشامل تھے، یہ اسلام میں سب سے پہلی ہجرت تھی یعنی حضرت عثمان ’’ اول المہاجرین ‘‘ تھے۔ دوران قیام حبشہ ان کے ایک صاحبزادے کی ولادت ہوئی ہے جس کانام عبداللہ رکھاگیا ۔ اسی لئے آپؓ کی کنیت ابوعبداﷲ تھی ۔ آپؓ عہد نبی ا کے تمام غزوات میں شریک تھے ۔
غزوئہ بدر کے موقع پر زوجئہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اﷲتعالی عنہا علیل ہوگئی تھیں۔اسی وجہ سے رسول اکرم ا نے فرمایا کہ ائے عثمان ! تم رقیہ کے پاس کھڑے رہو اور تمہیں اس جنگ میں شامل لوگوں کی طرح مال غنیمت ملیگا۔حضرت رقیہ رضی اﷲتعالی عنہا کی وفات کے بعد حضور اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اﷲتعالی عنہا کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کردیا۔ یہ نکاح منشائے الٰہی کے مطابق تھا۔ شعبان المعظم ۹ہجری کو ام کلثوم رضی اﷲتعالی عنہا کی وفات پر حضور نبی اکرم انے فرمایا اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کردیتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان کو ’’ذوالنورین‘‘ (یعنی دونوروالے)کہتے تھے کیونکہ آپ نبی اکے دوصاحبزادیوں کے یکے دیگربعد شوہر تھے۔(اسلامی انسائیکلوپیڈیا)
اسلامی خدمات : حضرت عثمان بن عفان ص کی اسلامی خدمات بے حساب ہیں ۔ جن میں سے ایک خدمت یہ ہے کہ مسجد الحرام کی توسیع جو ۲۶؍ ہجری میں کی گئی۔ اور ۲۹ ؍ہجری میں مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کی گئی ۔ سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ امت میں آپؓ کو ’’جامع القرآن ‘‘ کہاجاتا ہے۔ آپؓ کی خلافت کا نصف آخر بہت ہی پُر سکون رہا کثرتِ فتوحات کی بنیاد پر مال غنیمت میں بہت اضافہ ہوا ہے ، تجارت وزراعت میںترقی ہوئی ۔ جس کے باعث معاشرے میں خوشحالی آئی لیکن ساتھ ہی ساتھ معاشرے میں بگاڑپیدا ہوگیا۔ غیرمسلم یعنی یہودی اور عیسائی لوگوں کی طرف سے مختلف ناپاک عزائم بھی شامل تھے۔
۳۵؍ہجری کے آخرمیںباغیوں اور سرکش لوگوں نے مدینہ طیبہ کا رخ کیا اوروہاں داخل ہوکر ان بدبخت لوگوں نے آپؓ کے مکان کا محاصرہ کیا جو کہ تقریباً چالیس دن تک جاری رہا۔آخر میں ایک وقت یہ آیا کہ خلیفئہ سوم ص کا پانی بند کردیا گیاتھا۔ پتھرمارے گئے اور گھر جلادیا گیا اتناسب کچھ ہونے کے باوجود اس صورت حال میں حیرت انگیز صبر واستقلال کا بے مثال مظاہرہ کیا، لیکن کسی کوبھی آپ صنے اپنی طرف سے جنگ کی اجازت نہیں دی ۔ حضرت عثمان بن عفان ص کو وہ پیشن گوئی یاد آگئی جو حضور نبی اکرم ا دیے تھے کہ ’’ ائے عثمان تم ایک دن شہید ہونے والے ہیں‘‘۔ چنانچہ آخری رات تھی کہ خواب میں حضورنبی اکرم ا کو دیکھے آپ ا نے فرمایا ائے عثمان ہمارے ساتھ روزہ افطارکرنا۔
آپ ص کی تاریخ ِ شہادت: ۱۸؍ذوالحجۃ الحرام ۳۵ ہجری جمعہ کے دن باغیوں نے گھر میں داخل ہوکر خلیفئہ سومص کو اس وقت شہید کردیا جبکہ وہ تلاوت کلام پاک میں مصروف تھے اناﷲ واناالیہ راجعون۔ شہادت کے وقت آپ صکی عمر شریف ۸۰سال سے کچھ زائد تھی چنانچہ صحابہ کرام بشمول حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، کعب بن مالک اور زید بن ثابت رضوان اﷲتعالی عنہم اجمعین کی موجودگی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲتعالی عنہ کو جنت البقیع کی مشرقی جانب سُپرد خاک کیاگیا ۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[email protected]
بعض اکابر صحابہ نے اپنے اپنے فرزندوں کو ان کے مکان کے باہر مقرر کردیاتھا ان نگرانکاروں میں قابل ِذکرحضرت حسن ، حضرت حسین ، حضرت عبداﷲبن زبیراور حضرت عبداﷲبن عمر رضی اﷲتعالی عنہم شامل تھے ۔ ان کے علاوہ ایک جم غفیر ان کے پاس موجود تھا۔ تمام نے مل کریہ کہاکہ آپؓ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم ان باغیوں سے لڑیں گے لیکن انہوں نے منع کیا۔ اورفرمایا کہ میں تم سب کو اﷲکی قسم دلا کر کہتاہوں کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور اپنے گھر چلے جاؤ ۔