ابوزہیر سید زبیرھاشمی نظامی
نام : عثمان، والدکانام : عفان،کنیت : ابو عبد اﷲ
حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیسرے خلیفۂ رسول اﷲ ﷺ ہیں، آپؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبدِمناف پر رسول اﷲ ﷺ سے ملتاہے ۔ آپؓ کی والدہ کا نام اروی بنت کُریز ہے اور نانی ام حکیم البیضاء بنت عبد المطلب ۔ ان کی نانی حضرت نبی اکرم ﷺکی سگی پھوپھی تھیں ۔
ولادت : حضرت عثمان بن عفان ؓ کی ولادت عام الفیل کے تقریباً چھ سال بعد ۵۷۶ء میں ہوئی اس طرح وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے چھ سال چھوٹے تھے آپؓ کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زمانئہ جاہلیت میں ہی لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا ۔چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی آپؓ کو وحی الٰہی لکھنے پر مامور کیا ہے اسی طرح آپؓ کاشمار کاتبان ِوحی الٰہی میں ہوتاہے ،بہت زیادہ نیک فطرت تھے، قبل ِاسلام آپؓ کی زندگی میں بھی اپنے دامن کو آلودگیوں سے دور رکھے۔ شرم وحیا آپؓ کے اعلیٰ وارفع اخلاق کا طرئہ امتیاز تھا اسی لئے تمام مسلمانان ِعالم’’کامل الحیاء والایمان‘‘ کے مبارک الفاظ حضرت عثمان بن عفانؓ کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
حضرت سیدنا عثمان بن عفان ؓ جوانی میں اہل قریش ہی کی طرح تجارت کا پیشہ اختیار کیا ، آپؓ اپنی دیانت اور صداقت کی وجہ سے تجارت میں بہت زیادہ کامیابی حاصل کئے ، اور ساتھ ہی ساتھ آپؓ بہترین شاعر بھی تھے آپؓ مکہ مکرمہ کے معاشرے میں ایک ممتاز ، معزز،اور دولتمند تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ تمام لوگ آپؓ کو ’’غنی‘‘ کہکر پکارا کرتے تھے ۔حضرت سیدنا عثمان ؓکا شمارسابقون الأولون، عشرئہ مبشرہ {یعنی وہ دس صحابہ جن کو حضور ا دنیا میں ہی جنتی ہونے کی خوشخبری سنادیئے} اور ان اکابر صحابہ میں ہوتا ہے جن سے رسول اﷲ ﷺ تمام زندگی خوش رہے ۔ حضر ت ابوبکرؓ سے آپؓ کے خاص مراسم تھے، آپؓ ہی کی کوشش پر انہوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت سیدنا عثمان ؓ بعثت ِمصطفی ﷺ کے آغاز کے ساتھ ہی رسول اکرم ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ہے اور عمر بھر اپنی جان ، مال ، دولت اور سب کچھ اسلام کی خدمت میں پیش کردیا خلیفۂ سوم کا ہی قول ہے ’’میں اسلام قبول کرنے والے چار میں چوتھاہوں‘‘۔مجھ سے پیشتر حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور حضرت زید بن حارث ؓ اسلام قبول کئے ۔
ذوالنورین کہنے کی وجہ: حضرت سیدناعثمانؓ کو ذوالنورین {دونوروالے } کہنے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکر م ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲتعالی عنہا کا عقد حضرت عثمانؓ سے کیا ہے ۔ یہ عقد اتنا بابرکت تھا کہ مکہ مکرمہ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ بہترین جوڑا اگر کسی نے دیکھا ہے وہ حضرت رقیہ اور ان کے شوہرحضرت عثمان رضی اﷲتعالی عنہما کاہیں ۔بعثت کے پانچویں سال حبشہ کو ہجرت کرنے والوں میں حضرت عثمان اور اُنکی زوجہ حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالی عنہماشامل تھے، یہ اسلام میں سب سے پہلی ہجرت تھی یعنی حضرت عثمان ’’ اول المہاجرین ‘‘ تھے۔ دوران قیام حبشہ ان کے ایک صاحبزادے کی ولادت ہوئی ہے جس کانام عبداللہ رکھاگیا ۔ اسی لئے آپؓ کی کنیت ابوعبداﷲ تھی ۔ آپؓ عہد نبی ﷺ کے تمام غزوات میں شریک تھے ۔غزوئہ بدر کے موقع پر زوجئہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اﷲتعالی عنہا علیل ہوگئی تھیں۔اسی وجہ سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ائے عثمان ! تم رقیہؓ کے پاس کھڑے رہو اور تمہیں اس جنگ میں شامل لوگوں کی طرح مال غنیمت ملیگا۔ حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالی عنہا کی وفات کے بعد حضور اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عثمانؓ سے کردیا۔ شعبان المعظم ۹ہجری کو ام کلثوم ؓکی وفات پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کردیتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان کو ’’ذوالنورین‘‘ (یعنی دو نور والے)کہتے تھے کیونکہ آپ نبی ﷺ کی دوصاحبزادیوں کے یکے دیگربعد شوہر تھے۔(اسلامی انسائیکلوپیڈیا)
آپؓ کی تاریخ ِ شہادت: ۱۸؍ذوالحجۃ الحرام ۳۵ ہجری جمعہ کے دن باغیوں نے گھر میں داخل ہوکر خلیفۂ سوم کو اس وقت شہید کردیا جبکہ وہ تلاوت کلام پاک میں مصروف تھے اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ۔ شہادت کے وقت آپ ؓکی عمر شریف ۸۰سال سے کچھ زائد تھی چنانچہ صحابہ کرام بشمول حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، کعب بن مالک اور زید بن ثابت رضوان اﷲتعالی عنہم اجمعین کی موجودگی میں حضرت عثمان ؓ کو جنت البقیع کی مشرقی جانب سُپرد خاک کیاگیا ۔
zubairhashmi7@yahoo.com