مولانا سید شاہ سمیع اللہ حسینی بندہ نوازی
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ چشتیہ کے عظیم المرتبت بزرگ اور روحانی پیشوا ہیں۔ آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین خاص اور خلیفہ تھے، جنہیں دہلی میں چشتیہ سلسلے کی بنیاد مضبوط کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آپ قطب الاقطاب، سلطان المشائخ اور قطبِ دہلی جیسے بلند القاب سے جانے جاتے ہیں۔آپ کی ولادت ۵۶۹ ہجری (بمطابق ۱۱۷۳ء) میں وسط ایشیا کے تاریخی شہر اوش، وادیِ فرغانہ(موجودہ کرغیزستان) میں ہوئی۔ آپ کا شجرۂ نسب ۱۳ واسطوں سے حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
علم و معرفت کے حصول کے لیے آپ کا خاندان ابتدا میں عیش آباد آیا اور پھر آپ نے اپنے مرشد کامل حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے لیے سفر کیا۔ یہ ملاقات روحانی سفر کا اہم موڑ ثابت ہوئی اور آپ ان کے مرید خاص اور جانشین بن گئے۔ آپ محض ڈھائی برس کے تھے کہ والد محترم سید بختیار اوشی کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے نہایت ہی محنت ، دعا اور عقیدت کے ساتھ آپ کی پرورش کی۔ آپ کی روحانی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کے پندرہ پارے آپ کو ماں کے پیٹ ہی میں حفظ ہو گئے تھے۔ چار برس چار مہینے چار دن کی عمر میں بسم اللہ خوانی کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بذات خود تشریف لائے۔ الہام ہوا کہ قاضی حمید الدین ناگوری آپ کے معلم ہوں گے، · بچپن ہی سے آپ کو مراقبہ، ریاضت اور سماع سے گہرا شغف تھا۔
۱۷ برس کی عمر میں آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (غریب نواز) رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی روحانی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے حضرت غریب نواز نے فوراً ہی آپ کو اپنے سلسلے میں بیعت فرما لیا۔ آپ کی روحانی ترقی اس قدر تیز تھی کہ محض ۴۰ دن کے قلیل عرصے میں ہی آپ کو خلافت و خلعت سے سرفراز کر دیا گیا۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے مسلسل ۴۰ راتیں رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے معین الدین! قطب ہمارا دوست ہے، تمہارا خلیفہ اور سجادہ نشین ہوگا‘‘۔ اپنے مرشد کے حکم پر آپ ہندوستان تشریف لائے۔ راستے میں ملتان میں قیام کے دوران آپ نے شیخ بہاؤالدین زکریا سہروردی ؒسے ملاقات کی۔آخر کار آپ دہلی آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار فرمایا۔ دہلی کے سلطان شمس الدین التمش آپ کے گرویدہ ہو گئے اور ہفتے میں دو بار ضرور آپ کی زیارت کو حاضر ہوتے تھے۔ سلطان کی پیش کردہ تمام جاگیریں اور دنیاوی عہدے آپ نے زہد و استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹھکرا دی۔آپ کی ساری زندگی عشق حقیقی اور محبت الٰہی کی تجسیم تھی۔ آپ کی نگاہِ کامل سے ہزاروں فاسق و فاجر متقی اور پرہیزگار بن گئے۔ آپ نے ہندوستان میں قوالی اور سماع کو بطور ایک روحانی علاج متعارف کرایا۔ آپ کی حیاتِ مستعار زہد، قناعت، توکل اور عشقِ حقیقی کا روشن نمونہ تھی۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ممتاز عظیم ترین خلیفہ و جانشین حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ۱۴ ربیع الاول ۶۳۳ ہجری (بمطابق ۱۲۳۵ء) کو ایک محفلِ سماع کے دوران آپ پر شدید وجد کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بے ہوش ہو گئے اور چوتھے دن وصال فرمایا۔ آپ کا مزار مبارک مہرولی، نئی دہلی میں واقع ہے، جو آج بھی عقیدت و محبت کا مرکز ہے۔ آپ کا آستانہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں کیلئے سکون و سلامتی کی آماجگاہ ہے۔ یہاں ہر روز ہزاروں زائرین آپ کے روحانی فیض سے مستفید ہونے آتے ہیں۔· آپ کا سالانہ عرس ’’پھول والوں کی سیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے فیض سے مستفیض فرمائے اور ان کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(ماخوذ: سیر الاقطاب، فوائد السالکین، ویکی پیڈیا اور معتبر ویب سائٹس)