خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

,

   

مسلمان اور مذہبی شناخت … سنگھ پریوار کی سازش
مولانا توقیر رضا کی نظربندی کیوں ؟

رشیدالدین
قوموں کے عروج و زوال کا ’’احساس زیاں‘‘ سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جو قوم اپنے ماضی کو فراموش کردیتی ہے اس کا حال اور مستقبل تابناک نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملت کے مخلصین اور دردمند قیادتوں نے ہمیشہ احساس کے جذبہ کو قوم میں کمزور ہونے نہیں دیا۔ اسی جذبہ کو علامہ اقبال نے احساس زیاں کا نام دیا اور اس کے خاتمہ کو متاع کارواں سے محرومی اور ناکامی سے تعبیر کیا۔ احساس کا گہرا تعلق تشخص سے ہے اور کسی بھی قوم کو اپنی شناخت سے وابستہ رہنا ہوگا تاکہ ترقی اور تابناک مستقبل مقدر بن جائے۔ کسی بھی قوم کو زوال سے دوچار کرنا غلامی اور محکومی کا شکار بنانا ہو تو اسے شناخت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ہندوستان جہاں مسلمان تقریباً ایک ہزار برس تک حاکم رہے ، آج وہی قوم شناخت کے معاملہ میں بھٹک رہی ہے۔ مخالف اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں کا واحد ایجنڈہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی شناخت سے محروم کرتے ہوئے دوسرے مذاہب میں امتیاز کو ختم کردیا جائے۔ یہ طاقتیں جانتی ہیں کہ اگر مسلمان اپنے ماضی سے وابستہ رہیں تو احساس محرومی کے بجائے ان میں جذبہ ایمانی پیدا ہوگا۔ جب حقیقی معنوں میں احساس زیاں پیدا ہوجائے تو دوبارہ دنیا پر حکمرانی کے موقف میں ہوں گے۔ مخالف طاقتوں کی گزشتہ 75 برسوں سے یہی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ان کی تہذیب اور روایات سے دور کردیا جائے تاکہ دینی ملی تشخص ختم ہوجائے۔ مسلمان دیگر مذاہب کی روایات کو اختیار کرتے ہوئے نام نہاد قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ کبھی سیکولرازم تو کبھی قوم پرستی اور حب الوطنی کے نام پر مسلمانوں کو حقیقی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔ گزشتہ 8 برسوں میں سنگھ پریوار ، آر ایس ایس اور بھگوا تنظیموں نے کچھ زیادہ ہی سرگرمی دکھائی ہے۔ کل تک کھل کر نفرت کا اظہار کرنے والے آج نئی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں سے قریب ہورہے ہیں تاکہ اسلامی شناخت کے بجائے مسلمانوں کو ہندوتوا نظریات کا عادی بنادیا جائے۔ اس سازش کا مسلم سیاسی اور مذہبی قیادتیں بآسانی شکار ہورہی ہیں۔ آر ایس ایس قائدین کا مساجد اور مدارس میں سرخ قالین استقبال کیا جارہا ہے ۔ ہندوتوا اور ہندو راشٹر کے حامیوں کے ساتھ روابط اور خفیہ ملاقاتوں پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی مذموم حرکتیں جاری ہیں۔ دائیں بازو تنظیمیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ شناخت اور احساس کے خاتمہ کے ذریعہ محکوم بنانے میں دیر نہیں ہوگی۔ مشرکانہ رسوم و رواج کو اختیار کرنا اور شعائر اسلام کو نقصان پہنچانے والوں سے خوشگوار راہ و رسم کوئی عیب کی بات نہیں رہی۔ جب کسی قوم سے احساس ختم ہوجائے تو اس کا وجود ، عدم وجود دونوں برابر ہے ۔ اگر کوئی اسلامی تشخص اور شناخت کی برقراری کی بات کرے تو اسے ملک دشمن کہا جاتا ہے جبکہ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی ترویج کا حق دیا ہے۔ خود کو سیکولر ، محب وطن اور وسیع المشرف ثابت کرنے کیلئے قیادتوں کی بعض حرکات و سکنات نے مسلم معاشرہ میں بحث چھیڑدی ہے۔ دیگر مذاہب کا احترام یقیناً ہونا چاہئے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مشرکانہ رسوم و رواج کو اختیار کرلیں۔ گزشتہ دنوں بیسٹ پارلیمنٹرین ایوارڈ تقریب منعقد ہوئی جس میں مسلم رکن پارلیمنٹ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لوک سبھا کے 543 اور راجیہ سبھا کے 245 ارکان جملہ 788 پارلیمنٹرین میں ایوارڈ کے لئے ایک مسلمان کا انتخاب یقیناً خوش آئند ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیوری کا فیصلہ خالص میرٹ اور ایمانداری پر مبنی ہے یا پھر ہندوتوا نظریات کے درمیان مدعو کر کے اپنی پسند کا قوم پرست بنانا اور مسلمانوں الجھن پیدا کرنا ہے۔ ویسے بھی اگر جذبہ ، جنون اور ایمان ہو تو کوئی بھی طاقت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ جس شخصیت کے ہاتھوں ایوارڈ پیش کیا گیا ، ان کی آر ایس ایس سے وابستگی اٹوٹ اور مسلمہ ہے۔ تقریب میں موجود ایک اور شخص کا بابری مسجد کی شہادت سے راست تعلق ہے اور وہ بابری مسجد شہادت سازشی مقدمہ میں ملزم ہے۔ وقت اور حالات کی ستم ظریفی نے مسلمانوں کو بابری مسجد سے محروم کردیا لیکن بابری مسجد کے قاتلوں کے بارے میں کم از کم احساس تو برقرار رہنا چاہئے ۔ اس شخص کی مبارکباد اور مصافحہ سے انکار کرتے ہوئے اسلامی حمیت کا ثبوت دیا جاسکتا تھا ۔ اس طرح مظلوم مسلمانوں کی ہمت اور حوصلوں کو نئی جلا مل سکتی تھی اور قوم سر آنکھوں پر بٹھا لیتی ۔ کیا ہم نے بابری مسجد کے غم کو بھلادیا ہے جبکہ ہمارے اسلاف نے یہ عہد لیا تھا کہ آنے والی نسلوں کو مسجد کی شہادت کے ظلم سے واقف کراتے ہوئے تاقیامت اس غم کو تازہ رکھا جائے گا ۔ سیاستدانوں کو ان کے حلقہ انتخاب میں کوئی مخالف نظر آجائے تو مسلمان ہونے کے باوجود اس سے منہ موڑ لیا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ رسمی مصافحہ کا بھی خیال نہیں آتا لیکن بابری مسجد کی شہادت میں اہم رول ادا کرنے والے کا احترام مسلمانوں کے زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جو ہاتھ بابری مسجد کی شہادت میں شامل رہے، ان ناپاک ہاتھوں سے ایک مومن کے ہاتھ ملانے کا تصور بھی گراں گزرتا ہے۔ اگر ایوارڈ تقریب میں شرکت نہ بھی کی جاتی تو ایوارڈ چل کر گھر پہنچ سکتا تھا۔ یہی مواقع ہوتے ہیں جہاں جذبہ ایمانی اور تشخص اور شناخت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے ۔ حیدرآباد میں کئی دیانتدار ، مخلص اور ایمانی حرارت سے سرشار مذہبی اور سیاسی قیادتیں گزری ہیں ، ان کے وارثوں کو مصلحت پسندی کے بجائے حق گوئی اور راست بازی کا راستہ اخیتار کرنا چاہئے تاکہ قوم میں احساس زیاں باقی رہے۔
ملک میں مذہبی اور سیاسی قیادت کا خلاء پیدا ہوچکا ہے ۔ مولانا علی میاںؒ کے بعد علماء کی صف بھی خالی ہوچکی ہے ۔ وہ علماء آج نہیں ہیں جنہوں نے شریعت میں مدا خلت کو نہ صرف روکا بلکہ شاہ بانو کیس میں راجیو گاندھی حکومت کو دستوری ترمیم کے ذریعہ شریعت میں مداخلت سے بعض رکھا ۔ مرکزی حکومت کو علماء کے آگے جھکنا پڑا تھا ۔ علی میاں کی ایک دھمکی سے اترپردیش کے مدارس میں سوریا نمسکار پڑھانے کا سلسلہ بند کرنا پڑا۔ اب تو شریعت میں مداخلت ہوچکی ہے اور اذاں پر بھی پابندی لگادی گئی ۔ دینی مدارس اور اردو میڈیم سرکاری مدارس میں علامہ اقبال کی دعائیہ نظم ’’لب پہ آتی ہے دعاء بن کے تمنا میری‘‘ بھی برداشت نہیں ہے۔ بے حسی کا یہی عالم رہا کہ دینی مدارس میں وندے ماترم کو لازمی کردیا جائے گا۔ مسلم لیگ جس کی قیادت کسی زمانہ میں مسلمانوں کی نمائندہ سمجھی جاتی تھی لیکن پارٹی نے جب اصولوں سے انحراف کیا تو گوشہ گمنامی مقدر بن گیا ۔ مسلمانوں کی نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ کوئی پارٹی مسلم لیگ کے نام سے ہے جس کے پارلیمنٹ میں ارکان بھی ہیں۔ ملک کی وہ مذہبی جماعت جس کے لئے سیاست شجر ممنوعہ رہی اور جس کے قائدین نے ہمیشہ توحید کا درس دیا ۔ پابندیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود اظہار حق قے منہ نہیں موڑا۔ آج ان کے جانشین آر ایس ایس قیادت سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اپنے اقدام پر ندامت اور افسوس کے بجائے فخر کا اظہار کر رہے ہیں۔ جس جماعت کے اکابرین عہدوں سے بے نیاز تھے ، آج ان کے جانشین سرکاری عہدے پاکر خوش ہورہے ہیں۔ کیا ملاقاتوں کے ذریعہ آر ایس ایس کے نظریات تبدیل ہوجائیں گے ؟ بعض دوسرے ناعاقبت اندیش نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے بھیس میں موہن بھاگوت کو بابائے قوم کے خطاب سے نواز رہے ہیں۔ بھاگوت کو مساجد اور مدارس میں مدعو کیا گیا۔ اپنے اجداد اور اکابرین کے راستے انحراف کے ذریعہ قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیاجاسکتا۔ پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مندر میں شیو لنگ کا جل ابھیشک کرتے ہوئے جو حماقت کی ہے، اس سے مسلمانوں کو شرمندگی اٹھانی پڑی ۔ کشمیر کے مسلمان محبوبہ مفتی کو جل ابھیشک کا تحفہ ضرور دیں گے ۔ دوسری طرف اتحاد ملت کونسل کے مولانا توقیر رضا کو دہلی مارچ سے روکنے کیلئے گھر پر نظربند کردیا گیا۔ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں پر پابندی کے مطالبہ کے تحت دہلی مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔ ملک کو دستور اور قانون کے تحت چلانا ہے یا پھر ہندو راشٹر کے ایجنڈہ کے ذریعہ ملک میں بدامنی کی کیفیت پیدا کرنا ہے ، اس کا فیصلہ بی جے پی کو کرنا ہوگا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب علحدہ خالصتان کے نعرہ پر ملک دشمنی کے تحت مقدمات درج کئے جاتے ہیں تو پھر سیکولر ملک میں ہندو راشٹر کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے ۔ مسلمانوں کی بعض جماعتوں اور تنظیموں پر ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام میں پابندی عائد کی گئی۔ جارحانہ فرقہ پرست تنظیموں سے رعایت کیوں؟ مولانا توقیر رضا کو نظربند کرتے ہوئے احتجاج سے روکنا دستور میں دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ملک میں مسلم قیادتوں کو کمزور اور ختم کرنے کی سازش جاری ہے۔ اترپردیش میں اعظم خاں اس کی تازہ مثال ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کو بھلادیا گیا جنہیں تبدیلی مذہب کے نام پر جیل بھیج دیا گیا۔ ملک کے ساتھ مسلمانوں کا احسان کا رشتہ ہے لیکن ان کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ علامہ اقبال نے قوم کو کچھ یوں مشورہ دیا ؎
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر