خوردنی تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں

   

غریب و متوسط طبقہ پر اضافی مالی بوجھ
حیدرآباد۔ 20 نومبر (سیاست نیوز) اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی مار جھیلنے والے غریب و متوسط طبقات کے عوام پر پکوان کے لئے استعمال ہونے والے خوردنی تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ سے مالی بوجھ جہاں بڑھ گیا ہے وہیں ماہانہ گھریلو بجٹ میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ہول سیل ہو یا مالس یا چلر فروشی دوکانات لوٹ کھسوٹ میں برابر کی شریک ہیں جبکہ سرکاری انتظامیہ خواب غفلت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ صرف عوام پریشان ہو رہے ہیں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر حکومتوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہے جس کی وجہ سے تاجرین من مانی کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ پام آئیل کی قیمت میں 37 فیصد سے 41 فیصد تک اضافہ ہوگیا۔ سرسوں کے تیل کی قیمت میں بھی 29 تا 32 فیصد تک اضافہ ہوگیا۔ مرکزی حکومت نے 14 ستمبر کو تیل کی درآمد ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جس کی وجہ سے پام، سویا اور سورج مکھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی منڈلوں میں بھی خام تیل کی قیمتوں میں بالترتیب 10.6 فیصد 16.8 فیصد کا اضافہ ہوا، ساتھ ہی سورج مکھی کے تیل اور خام سویا بین پر درآمدی ڈیوٹی 5.5 فیصد سے بڑھاکر 27.5 فیصد کردی ہے۔ ریفائینڈ خوردنی تیل پر بھی ڈیوٹی 13.7 فیصد سے بڑھاکر 35.7 فیصد کردی گئی ہے۔ بتایا جارہا ہیکہ مقامی سطح پر تیل کے بیجوں کی گھٹتی ہوئی قیمتوں کے پس منظر میں کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے مرکزی حکومت نے درآمد ٹی ڈیوٹی میں اضافہ کیا ہے جس کا تیل کمپنیوں نے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں فوری اضافہ کردیا ہے جس کے بعد ملک میں خوردنی تیل کی بڑے پیمانے پر بلیک مارکٹنگ ہو رہی ہے۔ ہول سیلرس ہوٹلوں اور ریستوران سے خفیہ معاہدے کرتے ہوئے انہیں اپنے منافع کے ساتھ زیادہ قیمتوں میں تیل فروخت کررہے ہیں۔ ہول سیل کی دکانیں بھی اس بلیک مارکٹنگ کا حصہ بن رہی ہیں۔ گوداموں میں تیل کو ذخیرہ کرتے ہوئے عارضی طور پر قلت پیدا کی جارہی ہے۔ جب مارکٹ میں اس کی مانگ میں اضافہ ہونے کے بعد قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے بازاروں میں دستیاب کیا جارہا ہے۔ تاہم سرکاری انتظامیہ کی جانب سے بلیک مارکٹنگ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے جس سے ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ 2