مکی اور مدنی آیات کی خصوصیات

   

قرآن کا نزول مجموعی طورپر مکی اور مدنی زندگی کے ۲۳ برسوں میں ہوا، یعنی ۱۳سال ہجرت سے پہلے اور دس سال ہجرت کے بعد۔ ان دونوں زمانوں میں قرآن کے انداز بیان کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ مکی آیات عموماً نہایت چھوٹی چھوٹی ہیں، جب کہ مدنی آیات عموماً بڑی اور طویل ہوتی ہیں۔ مثلاً مدنی سورتیں قرآن کے ۳۰؍۱۱ حصے سے کچھ ہی زائد ہیں اور جن کی تعداد ۱۴۵۶ہے، جب کہ مکی سورتیں قرآن کا ۳۰؍۱۹ حصہ ہیں، لیکن وہ اس کی مجموعی آیتوں کے چوتھائی حصے سے کچھ ہی زائد ہیں۔ مثلاً اٹھائیسواں پارہ جو پورا مدنی ہے، اس کی آیتوں کی تعداد ۱۳۷ ہے، لیکن اس کے برعکس انتیسواں اور تیسواں پارہ جو مکی ہے، ان میں پہلے کی آیتوں کی تعداد ۴۳۱ اور دوسرے کی ۵۷۰ ہے۔ بہرحال یہ ایک غالب خصوصیت ہے، عام نہیں، کیونکہ کہیں کہیں معاملہ اس کے خلاف ہے۔

دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآن مدنی آیات میں ’’اے ایمان والو!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور ان میں ’’اے لوگو‘‘ سے تخاطب بہت کم ہے۔ اس کے برعکس مکی آیات میں ’’اے لوگو!‘‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ ’’اے ایمان والو!‘‘ کہہ کر مکی زندگی میں خطاب نہیں کیا گیا، البتہ مدنی زندگی میں ’’اے لوگو!‘‘ کہہ کر بھی سات مرتبہ خطاب کیا گیا ہے۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مکی حصے میں اعتقادات اور اخلاق پر زور ہے اور تفصیل بھی، کیونکہ اسلامی معاشرہ ابھی نہیں بنا تھا۔ اس کے برخلاف مدنی حصے میں احکام و قوانین کی تفصیل ہے، کیونکہ مدینہ میں اسلامی معاشرہ تشکیل پاچکا تھا۔
آسمانی کتابوں میں یہ امتیاز صرف قرآن ہی کو حاصل ہے کہ اس کی کتابت کا سلسلہ اس کے نزول کے ساتھ ہی جاری ہوا اور آخری مرحلے تک تسلسل کے ساتھ جاری رہا، جب کہ اس سے پہلے کی آسمانی کتابیں پہلے یادوں، گیتوں، قصوں اور کہانیوں کی شکل میں رہیں اور صدیوں بعد قلم بند ہوئیں۔ اس کے برعکس قرآن کی کتابت کا معاملہ یہ رہا کہ دوشنبہ، ربیع الاول ۴نبوی کو دوسری وحی نازل ہوئی اور اس کے چوتھے روز یعنی جمعرات، ربیع الاول ۴نبوی کو حضرت خالد بن سعید مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان کے اسلام لاتے ہی انھیں قرآن کی کتابت پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور فرمادیا۔ عہد رسالت میں کاتبان وحی ایک دو نہیں بلکہ ۴۲ تھے۔

اتنی بڑی تعداد مقرر کرنے کی وجہ یہی تھی کہ وقت پر ایک نہ ملے تو دوسرا اس کو انجام دے۔ حضرت حنظلہ بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ ،کاتبان وحی کے سردار اور نگران تھے، انھیں خاص طورپر حکم تھا کہ کوئی رہے نہ رہے یہ ضرور حاضر رہیں، تاکہ کتابت وحی میں تاخیر نہ ہو۔ مزید احتیاط یہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف قرآن لکھوا دینے پر اکتفا نہ فرماتے تھے، بلکہ کاتب لکھ لیتے تو آپﷺ پڑھواکر سنتے۔ اگر کوئی حرف یا لفظ لکھنے سے رہ جاتا تو درست کراتے اور جب یہ کام ہو جاتا تو اشاعت عام کا حکم ہوتا اور پھر جو بھی لکھنا جانتا تھا، لکھ لیتا تھا۔ نماز پنج گانہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رات دن قرآن سنتے، اس لئے ان کے غلط لکھنے یا غلط پڑھنے کا سوال ہی نہ تھا۔

کاغذ کی کمیابی بلکہ تقریباً نایابی کی وجہ سے قرآن کریم عہد رسالت میں چرمی قطعات، پتھر کی سفید پتلی پتلی تختیوں، اونٹ کے مونڈھے کی گول ہڈی، کھجور کی شاخوں کی جڑ کا وہ کشادہ اور عریض حصہ جس میں کانٹے والے پتے نہیں ہوتے، دباغت شدہ باریک کھال جس سے عموماً خیمے وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں اور کجاوے کے چوڑے اور پتلے تختے پر لکھا جاتا۔ اس تفصیل سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی کتابت میں ذرا سی غفلت نہیں برتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج صرف مسلمان ہی نہیں، غیر مسلم مؤرخین اور محققین بھی اس کی تاریخی صحت کا اعتراف کرتے ہیں۔
آیات اور سورتوں کی ترتیب بحکم خداوندی خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ اس کی ترتیب کا سارا کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زیر ہدایت و نگرانی مکمل ہوا۔ جس ترتیب سے آپﷺ لکھواتے، پھر اسی ترتیب سے نمازوں میں تلاوت فرماتے۔ چنانچہ تمام مسلمان اسی ترتیب سے اسے یاد کرلیتے تھے، اس طرح ترتیب قرآن بھی من و عن محفوظ ہے۔

اس تمام اہتمام کے باوجود قرآن کی شکل و صورت کتاب جیسی نہ تھی، بلکہ یہ متفرق چیزوں پر لکھا ہوا تھا۔ اسے مصحف کی شکل عہد رسالت سے متصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں دی گئی۔ واقعہ یہ ہوا کہ جنگ یمامہ میں حفاظ قرآن خاصی تعداد میں شہید ہوگئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے نور بصیرت نے اس اندیشے کو محسوس کیا کہ اگر اسی طرح حفاظ کرام شہید ہوتے رہے تو مستقبل میں قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہو جائے گا۔ انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے تجویز پیش کی کہ قرآن کو وہ مصحف کی شکل دے دیں، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ احتیاطاً وہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ لیکن غور و خوض اور اصرار کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے آمادہ ہوگئے کہ خدا نے اس بات کے لئے میرا سینہ کھول دیا، جس کے لئے اس نے پہلے ہی عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) کا سینہ کھول دیا تھا۔ چنانچہ اب میں نے بھی عمر سے تفاق کرلیا ہے۔ اس کے فوراً بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو بلوایا اور ساری تفصیل بیان کرکے انھیں مامور کیا کہ چوں کہ آپ عہد رسالت میں کاتب وحی رہ چکے ہیں، اس لئے آپ قرآن کو مدون کرکے مصحف کی شکل دیں۔ اولاً انھیں بھی اس سے اختلاف رہا، لیکن جب اس کی افادیت ان کی سمجھ میں آگئی تو وہ بھی تیار ہو گئے۔ اس کے بعد وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے قرآن کو کھجور کی شاخوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے اکٹھا کرکے جمع کیا، یہاں تک کہ سورۂ توبہ کا آخری حصہ مجھے حضرت ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا، جو کسی اور کے پاس نہیں تھا‘‘۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ اگرچہ خود حافظ قرآن تھے اور عہد رسالت میں کاتب وحی بھی رہ چکے تھے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے حافظہ اور اپنے لکھے ہوئے اجزاء پر قناعت نہیں کی، بلکہ دوسرے حفاظ اور دوسرے کاتبوں کے مخطوطے بھی اپنے سامنے رکھے اور ان اجزاء کو بھی سامنے رکھا، جو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں محفوظ تھے۔ اس طرح یہ مصحف قرآنی تمام مہاجرین و انصار رضی اللہ تعالی عنہم کے اتفاق و اجماع سے مکمل ہوا اور بالترتیب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اور پھر ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس محفوظ رہا۔