آصف سید
حضور نبی کریم ﷺپوری نسل انسانی کیلئے رسول بناکر بھیجے گئے، آپؐ کی جانفشانی اور انتھک کوششوں کے نتیجے میں دین اسلام ایک مختصر سے عرصہ میں عرب کے دور دراز علاقوں تک پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں اس کے ثمرات ظاہر ہونے لگے۔ تاریخ عالم پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں نیکی اور بدی ہمیشہ ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں۔ دشمنان اسلام کو دین اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی، لہذا انسان کے ازلی دشمن ابلیس کے پیروکار فوراً حرکت میں آگئے اور پیغمبر اسلام ﷺکو طرح طرح کی اذیتیں پہنچانے لگے، لیکن حضور اکرم ﷺنے ہرموقع پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختصر سے عرصہ میں اسلام کے زریں اصول پیش کئے، جن پر عمل کرکے انسان راہِ نجات حاصل کرسکتا ہے۔
حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ بدی ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ نیکی کو کچلنا چاہتی ہے، لیکن اس بار بدی کا انداز مختلف تھا، کیونکہ بدی کے پیروکار دیکھتے آئے تھے کہ ہر بار اور ہر موقع پر بدی کو شکست ہوئی ہے اور فتح ہمیشہ نیکی کے پیروکاروں کا مقدر بنی ہے، لہذا بہتر ہے کہ نیکی کے علمبردار سے بیعت لے لی جائے، تاکہ دنیا اچھائی اور برائی میں تمیز نہ کرسکے، وگرنہ خاموشی سے سر قلم کردیا جائے۔حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے سامنے دونوں باتیں پیش کی گئیں۔ ایک طرف دنیاوی لذتیں تھیں، آرام تھا، دولت تھی اور دوسری طرف موت تھی، پیاس تھی، سخت ترین مصائب تھے۔ اس صورت میں حضرت امام حسین کو زندگی اور موت کا آخری فیصلہ کرنا تھا۔ حضرت امام حسین جانتے تھے کہ زندگی ایک عزیز شے ہے اور انکار بیعت کی صورت میں میدان کربلا کی سوکھی زمین میرے خون سے تر ہو جائے گی اور اسلام کا کارواں اسلام کے نام نہاد علم برداروں کے ہاتھوں لٹ جائے گا۔ پس حضرت امام حسین علیہ السلام نے بہت سوچ سمجھ کر بیعت سے انکار کردیا اور حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضور خاتم النبیین ﷺتک سب کی لاج رکھ لی۔ یزید کی کوششوں پر پانی پھر گیا اور حضرت سیدنا امام حسینؑ کامیاب ہوگئے۔ اگر یزید، حضرت امام حسینؑ سے بیعت نہ طلب کرتا تو ازل سے چلی آرہی برائیوں کا فسق و فجور دنیا کے سامنے نہ آتا۔ برائی تاریخ کے پردوں میں چھپ جاتی اور اچھائی صرف کہانیوں قصوں تک محدود رہ جاتی، لیکن خون حضرت امام حسینؑ نے اچھائی کو سربلندی عطا کی۔
حضرت سیدنا امام حسینؑ نے کبھی بھی جلد بازی سے کام نہیں لیا۔ آپ نے جو بھی قدم اٹھایا نہایت سوچ سمجھ کر صرف اللہ کی رضا اور شریعت محمدی ﷺکے تحفظ کے لئے اُٹھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس وقت مدینہ منورہ کے دربار میں حضرت امام حسینؑ کو بلاکر بیعت طلب کی گئی، اس وقت خاندان بنی ہاشم کے جوان آپ کے ساتھ تھے، جو سب کے سب جری اور بہادر تھے، لیکن آپ نے سب کو دربار میں جانے سے روک دیا اور تنہا حاکم مدینہ (گورنر) کے سامنے گئے۔ ایسا صرف اس لئے کیا کہ انھیں معلوم تھا کہ حاکم مدینہ ان سے کیا بات کہنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر اگر خاندان بنی ہاشم کے جوانوں کی تلواریں میان سے نکل آتیں تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا اور پھر مؤرخ آپ کو قصوروار ٹھہرا دیتا۔ دنیا یہی کہتی کہ بنی ہاشم نے امن و امان کا مسئلہ درہم برہم کردیا تھا، لہذا ان سے جنگ کرنا ضروری ہو گیا تھا اور پھر یہ جنگ دنیا کی دوسری جنگوں کی طرح اقتدار کی جنگ کہلاتی۔ لہذا حضرت امام حسین علیہ السلام نہایت صبر و سکون کا مظاہرہ کرتے ہوئے دربار سے واپس آگئے اور پھر تمام اعزاء اور احباب کو جمع کرکے ان سے کہا کہ ’’میں مدینہ سے جا رہا ہوں، میرا مقصد کسی سے جنگ کرنا نہیں اور نہ ہی مجھے اقتدار کی ہوس ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ مدینہ منورہ میں میری وجہ سے خونریزی ہو‘‘۔ کیونکہ حضرت سیدنا امام حسینؑ انجام کار سے بخوبی واقف تھے۔روانگی کے وقت اعزاء اور احباب کے مشوروں کو سماعت فرمانا اور اطمینان بخش جواب دینا، اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ہر قدم جان بوجھ کر نہایت تدبر اور استقلال سے اُٹھا رہے تھے۔ مکہ مکرمہ پہنچے تو وہاں معلوم ہوا کہ کچھ شرپسند آپ کے تعاقب میں ہیں، لہذا پھر وہی امن و امان کا مسئلہ درپیش تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نہیں چاہتے تھے کہ خدا کے گھر میں خونریزی ہو اور اسلام کا شیرازہ بکھر جائے، لہذا آپ نے اپنے آخری حج کو عمرہ میں تبدیل کردیا اور مکہ مکرمہ سے کربلا کی طرف کوچ کر گئے۔
حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے قافلہ میں چند جوان، کچھ بوڑھے، خواتین اور بچے تھے۔ آپ ہر ہر موقع پر انھیں حالات سے باخبر رکھتے۔ فرداً فرداً ہر ایک سے فرماتے کہ میرا ساتھ چھوڑ دو، میں تم سے کوئی شکوہ نہیں کروں گا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایک فرد بھی آپ کے قافلہ سے نہیں گیا۔ روز عاشورہ یزیدی لشکر کا ایک سردار جس کا نام حُر تھا، وہ اور اس کا بیٹا مع غلام کے حسینی لشکر میں شامل ہوگئے، جو عظمت امام حسینؑ کی روشن دلیل ہے۔
واقعہ کربلا جو تاریخ عالم میں اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ ہے، جو انسانی تاریخ کی روح اور اسلامی تعلیمات کا جوہر ہے، بے حد گہرے مطالعہ کا متقاضی ہے۔ زندگی کا جو نصب العین حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے پیش کیا، اسے آج ہم بھول بیٹھے ہیں۔ اگر ہم دنیا و آخرت میں سربلندی چاہتے ہیں تو ہم کو نفرتوں کو بھلاکر اتحاد کی فضاء پیدا کرنی ہوگی۔ حق و باطل، نیکی و بدی، اچھائی اور برائی میں تمیز پیدا کرنی ہوگی۔ یہی پیغام حسینی ہے اور اسی میں انسانیت کا راز پوشیدہ ہے۔
آج پھر انسانیت کو روشنی درکار ہے
آج پھر کوئی حسین ابن علی درکار ہے
واقعہ کربلا جو تاریخ عالم میں اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ ہے، جو انسانی تاریخ کی روح اور اسلامی تعلیمات کا جوہر ہے، بے حد گہرے مطالعہ کا متقاضی ہے۔ اس واقعہ میں انسانی نفسیات کے دونوں رخ پوری طرح بے نقاب ہو گئے ہیں۔ روحانیت اور انسانیت پوری تکمیل کے ساتھ امام عالی مقام اور ان کے احباب کے کردار سے ظاہر ہوئی۔ جب کہ دوسری جانب شیطانیت اور آمریت کے پیروکار اپنے تمام تر مکاریوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
اگر حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کو طاقت کا مقابلہ طاقت سے کرنا ہوتا تو ویسی ہی فوج فراہم کرتے، مگر امام عالی مقام کا مقصد ہی دوسرا تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ نیکی اور بدی کے درمیان جو سیاہ چادر ہے، اسے ہمیشہ کے لئے تار تار کردیا جائے، تاکہ احساس بیداری پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسین نے کربلا میں صبر کی منزلوں کو طے کرنے کے ساتھ ساتھ فرائض کی حد کی حدیں بھی دکھائیں۔ آپ نے اخلاقی اور مذہبی قدروں کے تحفظ میں اپنی اور اپنے عزیز ترین اعزاء و احباب کے سر کی بازی لگادی، لیکن کسی اقدام سے اس تشدد کو نہیں آنے دیا، جو انسانیت کے لئے تباہ کن ہو۔
زندگی کا جو نصب العین حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے پیش کیا، اسے آج ہم بھول بیٹھے ہیں۔ اگر ہم دنیا و آخرت میں سربلندی چاہتے ہیں تو ہم کو نفرتوں کو بھلاکر اتحاد کی فضاء پیدا کرنی ہوگی۔ حق و باطل، نیکی و بدی، اچھائی اور برائی میں تمیز پیدا کرنی ہوگی۔ یہی پیغام حسینی ہے اور اسی میں انسانیت کا راز پوشیدہ ہے۔
آج پھر انسانیت کو روشنی درکار ہے
آج پھر کوئی حسین ابن علی درکار ہے