مولانا حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ
اسلام ایک کامل و مکمل ضابطۂ حیات و نظام عدل ہے ۔ اسلام کے تمام تر عقائد و احکامات پر عمل کرنا اور اُس کے جتنے شعبۂ جات (عقائد و عبادات ، اخلاق و عادات اور معاملات ) کے حقوق کی بجا آوری کرنا ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے ۔ جب مسلمان کلمۂ توحید پڑھتا ہے تو خدا پر کامل یقین ہونے کااظہار کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عہد کرتا ہے کہ اپنی ساری زندگی خدا کے مقرر کردہ اُصول و قوانین تعلیمات و احکامات پر گذارے گا اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہوگا اور اپنے ہر معاملہ کی یکسوئی و حل کے لئے اﷲ تعالیٰ کے نافذ کردہ اُصول و قوانین کے مطابق عمل کرے گا ۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے پیش کرے گا اور اس فیصلہ کو دل کی گہرائیوں سے قبول و منظور کرے گا ۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح کردیا ہے کہ نزاع کے وقت اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا ایمان کا تقاضہ ہے ۔
انسانی معاشرہ میں اختلافات و تنازعات کا پیدا ہونا کوئی اندیکھی چیز نہیں ہے بلکہ مزاج کی تنوع ، باہم ظلم و زیادتی اور ایک دوسرے کی حق تلفی کی وجہ سے ان کا رونما ہونا ناگزیر ہے ۔ نکاح زندگی بھر باہم محبت و مودّت کے ساتھ نبھانے کا مقدس رشتہ ہے ۔ مرد اور عورت کا رشتہ نکاح و ازدواجی تعلق اخلاق ، مودت و رحمت اور حدود اﷲ کی حفاظت کے ساتھ قائم ہے جس کو قرآن نے فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍکے جامع الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور اگر اس طرح باہم مل کر رہنا ممکن نہ ہو تو تَسْرِيْحٌ بِاِحْسَانٍہونا چاہئے یعنی سیدھی طرح الگ ہوجائے ۔ اگرچہ شریعت میں رشتہ نکاح کا توڑنا بہت ہی ناپسندیدہ عمل ہے لیکن بعض اوقات مزاج کی ناموافقات ، ظلم و زیادتی ، حق تلفی اور قدرتی اسباب کی وجہ سے ایک دوسرے کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوجائے تو آپس میں اپنے قریبی دونوں جانب سے حکم مقرر کرے جو دونوں کو آپس میں جڑے رکھنے کا حد درجہ امکانی کوشش کرے اور اس رشتہ کو مضبوط و مستحکم بنائے ۔ اگر اس رشتہ کی بقاء میں مقاصد نکاح کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو ختم کردینا دونوں کے حق میں بہتر ہوجاتا ہے جس کی بناء پر شریعت نے رشتہ نکاح کو قطع کرنے کی اجازت دی ہے ۔ رشتہ نکاح کو ختم کرنے کی بنیادی طورپر تین صورتیں ہیں : ۱) طلاق ۲) خلع ۳) فسخ و تفریق
۱) مرد اپنے اختیار سے رشتۂ نکاح کو ختم کردے تو ’’طلاق ‘‘ ہے
۲) بیوی کے مطالبہ پر باہمی رضامندی سے جدائی ہو تو ’’خلع ‘‘ ہے
۳) بیوی کے مطالبہ پر قاضی (مسلم حاکم عدالت ) کے فیصلہ سے ہو تو ’’فسخ‘‘ ہے
مصالح شرعی کی رعایت کرتے ہوئے ہر دور میں علماء دین حنیف نے نظام قضاء ت کے قیام کو ایک ضروری کام قرار دیا اور منظم و باقاعدہ طورپر جگہ جگہ دارالقضاء ؍ شرعی پنچایت قائم کئے جہاں زوجین میں مصالحت ، تحقیق طلاق ، خلع ، اور وراثت کے متعلق مسائل پر سماعت کی جاتی ہیں اور شریعت کی روشنی میں ان مسائل کو حل کیا جاتا ہے ۔ دارالقضاء کے نظام سے خصوصاً خواتین کو بڑی سہولت حاصل ہوتی ہے ۔ بغیر مشقت کے نہایت ہی کم وقت میں کونسلنگ کے ذریعہ ان کے معاملات طئے کئے جاتے ہیں اور ان کے حقوق دلائے جاتے ہیں۔ دارالقضاء اس بات کی بھی کوشش کرتا ہے کہ طلاق کے واقعات کم ہوں ۔ جب میاں بیوی کے درمیان نزاع پیدا ہوجاتا ہے اور اختلاف اس حد تک بڑھ جاتا ہے اور اس بات کا اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ شوہر طلاق دے دے گا تو دارالقضاء ؍ شرعی پنچایت عورت کی درخواست پر اس کے شوہر کو سمجھاتا ہے اور مفاہمت کاراستہ نکالتا ہے ۔ دارالقضاء کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ زوجین کے درمیان باہمی ربط و محبت پیدا کرنا ، دونوں کے مزاج میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کروانا جس کی وجہ سے ایک مستحکم و مضبوط معاشرہ وجود میں آسکے۔
ہندوستان میں ایسی عورتوں کی کافی تعداد موجود ہیں جو اپنے شوہروں کی تختہ مشق بنی ہوئی ہیں یا شوہر کے مفقود اور غائب و لاپتہ ہونے کی وجہ سے حقوق زوجیت سے محروم و محتاج ہیں یا ظالم شوہروں نے ان کو معلقہ بناکر چھوڑ دیا ہے ۔ جب ایسی مظلوم عورتیں کسی طرح اپنے شوہروں سے خلاصی حاصل کرنے سے عاجز آجاتی ہے تو ارتداد کی طرف متوجہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دارالقضاء کی یہ کوشش و کاوش رہتی ہے کہ اس طرح کے معاملات کا سدباب کیا جائے اور اس فتنہ عظیم کو روکا جائے ۔
دارالقضاء پنجہ شاہ حیدرآباد مسلمانوں سے درخواست و اپیل کرتا ہے کہ اپنے گھریلو معاملات ( جیسے میاں بیوی کے جھگڑے ، شوہر کا اپنی بیوی کو حقوق زوجیت ادا نہ کرنا ، اس کے ساتھ ناروا سلوک کرنا ، مارپیٹ کرنا ، شوہر کا طلاق دیکر مکرجانا، اسی طرح بیوی کا اپنے شوہر کی نافرمانی کرنا اس کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنا وغیرہ ) کو صلح ، خلع ، طلاق کے ذریعہ سے قرآن و سنت کے مطابق حل کرنے کے لئے نیز دو لوگوں یا دو گروہوں کے درمیانی تنازع و اختلافات کو صلح و مصالحت کے حل کے لئے اور اپنی موروثی جائیداد کو شریعت کے مطابق تقسیم کروانے کے لئے دارالقضاء پنجہ شاہ حیدرآباد سے رجوع ہوں ۔