داغدار سیاستدانوں کا مسئلہ

   

اے شہر کے گل پیرہنو، بام پہ آؤ
ماحول کو بیدار کرو موسم گل ہے
داغدار سیاستدانوں کا مسئلہ
ہندوستان میں ووٹ کو عزت دو کا معاملہ یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ سیاست میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کے داخل ہونے کے بعد رائے دہندوں کا پاک صاف امیدوار کو ووٹ دینے کا اختیار ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کو انتخابات میں پارٹی ٹکٹ نہ دیں۔ سپریم کورٹ کی اس بات پر کتنی پارٹیاں عمل کریں گی یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت حکمراں پارٹی بی جے پی میں کئی قائدین کا ریکارڈ مجرمانہ ہے۔ کئی ارکان پارلیمنٹ پر مقدمہ چل رہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈروں کی اکثریت کے بارے میں یہی الزام ہیکہ پارٹی کے اندر ہر تیسرا لیڈر مجرم ہے۔ قتل، اغواء، عصمت ریزی اور ڈرادھمکا کر رقومات حاصل کرنے کے الزامات اور سزاء پانے والے افراد کو بی جے پی نے انتخابات میں اپنا امیدوار بنا کر ان میں سے کئی قائدین کو مرکزی کابینہ میں بھی شامل کیا ہے۔ اپوزیشن کانگریس نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد اپنے ردعمل میں بی جے پی کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بی جے پی نے کئی داغدار قائدین کو وزارتوں پر فائز کیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے خود مجرموں کی پشت پناہی کی ہے۔ کرناٹک کے وزیر جنگلات آنند سنگھ کا خاص کر ذکر کرتے ہوئے کانگریس نے اس لیڈر کی تمام مجرمانہ سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ہندوستان کی موجودہ سیاست اور سیاستدانوں پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ سیاسی پارٹیوں نے بدنام زمانہ اور قانون کو مطلوب یا قانون کی جانب سے سزاؤں کا سامنا کرنے والوں کو اپنا رکن، امیدوار اور لیڈر بنانے کے علاوہ کابینہ میں بھی شامل کیا ہے۔ ماضی میں کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت میں بھی شامل کئی افراد کو مجرمانہ ریکارڈ رکھنے کے الزامات کاسامنا تھا۔ اب برسراقتدار بی جے پی کے تعلق سے اپوزیشن نے انگشت نمائی کی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں تمام سیاسی پارٹیوں کی یہ ذمہ داری ہیکہ ان کو مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو امیدوار بنانے کے ساتھ اپنے اس فیصلہ کو حق بجانب قرار دینے کیلئے جوابدہ ہونا ہوگا۔ سرگرم سیاست کو مجرموں کا گڑھ بنانے سے روکنے کیلئے سپریم کورٹ نے 2013ء میں بھی بعض اقدامات کئے تھے اور قانون عوامی نمائندگان میں پائی جانے والی خامیوں کو ہٹادیا تھا جس کے بعد جرائم میں ملوث ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کو فوری نااہل قرار دینے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں خصوصی عدالتیں بھی قائم کی تھیں جہاں پر داغدار ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی پر کارروائی کی جاسکے۔ عدالت عظمیٰ نے سیاسی پارٹیوں کو ہدایت دی کہ وہ ازخود مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے سیاستدانوں کی تفصیلات اپنے ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کریں۔ سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی تفصیلات جاری کریں لیکن ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کے اندر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل کرنے کی طاقت ہے یا نہیں یہ غور طلب ہے کیونکہ جن مجرمانہ ریکارڈ کے حامل افراد کی بات کی جاتی ہے وہ اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ اپنی دولت اور بازوؤں کے زور سے پارٹی ہائی کمان کو اپنے کنٹرول میں کرلیتے ہیں۔ اپنے تمام جرائم پر پردہ ڈالنے قانون سے بچنے کیلئے ہی یہ لوگ سیاسی پارٹیوں کا سہارا لیکر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سایہ میں آجاتے ہیں۔ بی جے پی کی اہم قیادت بھی اس طرح کے افراد کو سہارا دے رہی ہے۔ ہندوستان میں 2009ء سے 2019ء کے دوران لوک سبھا کیلئے منتخب ہونے والے امیدواروں میں زیادہ تر امیدوار مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں ان پر قتل، عصمت ریزی، اغواء کے الزامات ہیں۔ ایسے کئی امیدوار بھی ہیں جو اپنے حلفنامہ میں باقاعدہ مجرمانہ ریکارڈ کے کالم میں اس کا اعتراف کرتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن اب تک نظرانداز کرتا رہا ہے البتہ اب الیکشن کمیشن نے بھی اپنے نئے اصولوں کے تحت سیاسی پارٹیوں کو مجبور کردیا ہیکہ وہ مجرمانہ ریکارڈ کے امیدواروں کو ٹکٹ دیتے وقت ان کی ساری ذمہ داری خود لیں۔ اگر سیاسی پارٹیاں مجرمانہ ریکارڈ کے حامل لیڈروں کو ٹکٹ دیکر اس کے فیصلہ کو حق بجانب قرار دیں تو پھر یہ ہندوستانی سیاست کیلئے بہت بڑا المیہ ہے۔ لہٰذا تمام سیاسی پارٹیوں خاص کر پارلیمنٹ کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ داغدار لیڈروں کی وجہ سے ملک کا سیاسی ماحول مکدر ہوتا جارہا ہے جو پارلیمنٹ کے تقدس اور قانون کی حکمرانی کیلئے خطرہ ہے۔
ہند ۔امریکہ تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان کے موقع پر ہند ۔ امریکہ تجارت کے امکانات کو وسیع تر بنانے کی کوشش کے دوران یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورہ سے 10 دن قبل ہی دونوں ملکوں کے عہدیداروں نے زراعت، پولٹری اور ڈیری کے بشمول مختلف شعبوں میں پائے جانے والے اختلافات کو دور نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ میں اپنے دورہ ہند پر بہت زیادہ جذباتی ہونے کا اظہار کیا ہے اور ہندوستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو نئی سطح پر لے جانے کا عزم ظاہر کیا مگر کئی شعبوں میں تجارتی معاہدوں کیلئے باہمی منافع کے مسئلہ پر اختلاف برقرار ہے۔ ہندوستان کی جانب سے یہ واضح کیا گیا ہیکہ وہ اپنے مفادات کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ امریکہ نے ہندوستان کو ڈیری پراڈکٹ اور دودھ برآمد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ہندوستان کو امریکی ڈیری اور دودھ حاصل کرنے میں تعمل ہورہا ہے کیونکہ یہ اشیاء مویشیوں کے اندرونی اعضاء سے حاصل کی جاتی ہیں جس میں خونی اجزا، یا خلیے (ٹشو) بھی شامل ہوتے ہیں اور یہ ہندوستان کی بڑی آبادی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی بات ہے۔ ہندوستان نے اپنی طرف چکن سربراہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس طرح دیگر شعبوں کی تجارت کے بارے میں بھی دونوں ملکوں نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے تو صدر ٹرمپ کے دورہ کے موقع پر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی یا نہیں یہ غیرواضح ہے۔ صدر ٹرمپ 24 اور 25 فبروری کو ہندوستان کا دورہ کررہے ہیں اس دورہ کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی معاہدہ پر دستخط ہوں گے یا نہیں یہ واضح نہیںہے کیونکہ دہلی میں ہونے والی بات چیت کے دوران امریکی کمپنیوں کے ایگزیکیٹیوز کو شامل نہیں کیا گیا۔ امریکہ نے بعض پراڈکٹس پر معیاری ڈیوٹیز نافذ کئے ہیں جن کو استثنیٰ دیتے ہوئے ہندوستان کو راحت پہنچانا ضروری ہے۔