ہندوستان میں ان دنوں شرپسندی اور انتہاء پسندانہ سوچ و منصوبوں پر عمل آوری عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ اچانک ہی کوئی کسی دن نمودار ہوتا ہے اور مسلمانوں کے مقدس مقامات اور ان کی مساجد کو نشانہ بناتے ہوئے عدالتوں سے رجوع ہوجاتا ہے ۔ پھر مساجد و درگاہوں وغیرہ کو یا تو مسمار کردیا جاتا ہے یا پھر انہیںمتنازعہ بناتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ گذشتہ دنوں اترپردیش کے سنبھل شہر میں اچانک ہی 500 سال قدیم مسجد کو نشانہ بناتے ہوئے سروے کیا گیا ۔ وہاں مسجد کمیٹی یا مسلم فریق کو نوٹس تک نہیں دی گئی ۔ اچانک سروے کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوئے ۔ تشدد برپا ہوا ۔ پولیس فائرنگ ہوئی اور تین بے قصور اور نہتے مسلم نوجوان شہید ہوگئے ۔ ابھی یہ واقعہ تازہ ہی ہے کہ ہندوستان کی مقدس ترین سمجھی جانے والی درگاہ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی ؒ اجمیر شریف کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اب اجمیر کی ایک مقامی عدالت میںدرگاہ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی ؒ کو شیومندر قرار دیتے ہوئے درخواست داخل کی گئی ہے اور سروے کی مانگ کی گئی ہے ۔ عدالت نے اس درخواست کو سماعت کیلئے قبول بھی کرلیا ہے ۔ یہ ایک انتہائی شرپسندانہ اور انتہاء پسندانہ سوچ ہے ۔ اس کا واحد مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا ہے ۔ اس کے ذریعہ مسلمانوں میں دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس پیدا کرنا ہے ۔ اس کے ذریعہ ملک کے ماحول کو فرقہ پرستی کی سوچ سے زہر آلود کرنا ہے ۔ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے کیونکہ اجمیر شریف میںحضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی ؒ کی درگاہ 800 سال قدیم ہے ۔ یہاں ہر روز ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد زیارت کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔ ان میں کثیر تعداد میں غیر مسلم ہندو افراد کی بھی ہوتی ہے ۔ راجستھان کی ریاستی اور مرکز کی حکومتوں کی جانب سے ہر سال عرس شریف کے موقع پر سرکاری سطح پر چادر بھی روانہ کی جاتی ہے ۔ یہ سب کچھ ایک واضح حقیقت ہے اس کے باوجود شرپسندانہ منصوبوں پر عمل کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔
درگاہ اجمیر شریف سے ہندوستان مسلمانوں کو ہی عقیدت نہیں ہے ۔ ہندوستان کے تقریبا ہر مذہب کا ماننے والا حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی ؒ کی بارگاہ میں عقیدت و احترام سے حاضری دیتا ہے ۔ چاہے عرس شریف کا موقع ہو یا پھر عام ایام ہوں سبھی مذاہب کے ماننے والے یہاں حاضری دینے کو باعث برکت سمجھتے ہیں۔ اس سب کے باوجود کچھ عناصر اس طرح کی حرکتیں کرتے ہوئے سارے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ شبہات تقویت پاتے ہیں بلکہ یقین میں بدل جاتے ہیں کہ ان عناصر کو مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کی سرپرستی اور پشت پناہی حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں 1991 کا عبادتگاہوں سے متعلق قانون رہنے کے باوجود مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دی جار ہی ہے اور قانون کو نظر انداز کیا جا رہا ہے بلکہ اسے معرض التواء میںہی رکھ دیا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے سیاسی عزائم کی تکمیل تک اس قانون کی پاسداری کرنے سے گریز ہی کرنا چاہتی ہے بلکہ اس قانون کو ختم ہی کردینا چاہتی ہے ۔ ملک میں ایک جامع قانون رہنے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کی عبادتگاہوں اور مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت خاموشی اختیار کرتے ہوئے ایسی حرکتوں کی بالواسطہ پشت پناہی کر رہی ہے جو انتہائی مذموم حرکت ہے اور یہ ملک کے کروڑوں باشندوں کے مذہبی جذبات سے وابستہ مسئلہ ہے۔اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے ۔
مرکزی حکومت کو اور راجستھان کی ریاستی حکومت کوا س معاملے میں حرکت میں آتے ہوئے عدالتی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کی شرپسندانہ اور انتہائی مذموم کوشش کی عدالت میں مخالفت کرتے ہوئے درخواست قبول کئے جانے کو بالائی عدالتوں میں چیلنج کیا جانا چاہئے اورجو عناصر اس طرح کی کاوشوں کے ذریعہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ اس طرح کے معاملات کو طو ل پکڑنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ اس کو ابتداء ہی میں روکنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنا ریاستی اور مرکزی دونوں ہی حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے ۔