دستورِ_ہند؛ ایک معروضی مطالعہ

   

کسی بھی ملک اور اجتماعی نظام کو چلانے، نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور پر امن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے مضبوط ومستحکم آئین کی ضروررت ہے، یہی آئین کسی بھی مملکت کی بنیاد و اساس ہوتاہے؛جس کا تحفظ پورے نظام کو انتشار سے بچانے اور حق دار تک اس کا حق پہونچانے میں ممدو معاون بنتاہے، اسی کے ذریعہ بنیادی نظریات وتصورات،اندورنی نظم ونسق کے اہم اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ان کے فرائض و اختیارات کی حدبندی وتعیین ہوتی ہے۔ شہری، سیاسی اور انسانی حقوق کے تحفظات کے لیے دستور و آئین کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی جو مملکت اور شہریوں کے حقوق کی پاس داری کر سکے۔ ملک کے لیے جو بھی قوانین وضع کیے جائیں گے وہ اسی دستور کی روشنی اوردائرہ میں ہوں گے۔ ہمارے ملک کے دستور کا نام ‘بھارت کاآئین’ ہے، جیساکہ دستور کی دفعہ 393 میں اس کا ذکرملتا ہے۔

         پندرہ اگست 1947ء کو ہمارا ملک انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد ہوا اور آزادی کے تقریباً ڈھائی سال بعد آئین کا نفاذ عمل میں آیا، اس کے بعد سے ہندوستان ایک مکمل خود مختار جمہوری ملک بن گیا جس کا خواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا اور جس کی آبیاری کے واسطے جام شہادت نوش کیا تھا، اس واقعے کو اب 70سال سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے؛ جو ہمیں آئین پر عمل آوری کے حوالے سے دعوت احتساب دے رہا ہے۔

         اس طے شدہ دستور کے آغاز میں جو جملے مرقوم ہیں وہ انتہائی چشم کشا اور بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادیٔ خیال، اظہار رائے، آزادیٔ عقیدہ و مذہب و عبادات، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔‘‘

🇮🇳 آئین ہند:
26؍نومبر 1949ء کو سات رکنی کمیٹی (جس کے چئیر مین ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر تھے) نے آئین کا مسودہ حکومت کو سونپا،جس کا نفاذ 26؍جنوری 1950 سے عمل میں آیا۔اب تک اس آئین میں تقریباً 92؍ترامیم ہو چکی ہیں۔ آئین سازی کے عمل میں دوسرے اراکین کے ساتھ ساتھ مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا۔ جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی، خان عبدالغفار خاں، محمد سعداللہ، عبدالرحیم چودھری، بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانی کے نام شامل ہیں۔ اس دستاویز پر مولانا حسرت موہانی کے علاوہ سبھی اراکین اسمبلی نے دستخط کیے۔ اسمبلی کا آخری اجلاس24؍دسمبر 1949ء کو منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو اتفاق رائے سے ہندوستان کا اولین صدر جمہوریہ منتخب کرلیاگیا۔بھارت کے آئین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے طویل آئین ہے؛جس میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کو خاصی اہمیت دی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق جمہوریہ ہند کا دستور کچھ اس طرح سے ہے۔
دستور ہند میں 395 ؍دفعات (articles)،22؍ابواب(chapters)،12؍ضمیمے(schedus)،اور 02؍تتمے(appndix)ہیں۔ ملک کا یہ دستوراپنی بہت سی خوبیوں اور کچھ خامیوں کے باوجود دنیا کے بہترین دستور میں شما ر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جس قدر پامالی و بے حرمتی دستورہند کی گئی شاید ہی دنیا کے کسی دستور کی کی گئی ہو۔اور جتنا اس دستور کے الفاظ و معانی، مطالب ونتائج سے کھلواڑ کیا گیا دنیا کے کسی ملک کے دستور کیساتھ نہیں کیا گیا۔ حکمراں طبقہ نے عوام کو آئین کی طاقت اور اس کی اہمیت سے واقفیت ہی نہیں ہونے دیا اور عوام نے بھی کبھی دستور کے مکمل نفاذ کے بارے میں کوئی پرزور تحریک نہیں چلائی، خصوصاََ مسلمانوں نے تو اس سلسلہ میں کافی کوتاہی برتی۔ بھارت میں ثقافتی فاشزم کو سیکولرزم کے سانچے میں ڈھالا گیا اور ایک مذہب کے عقائد کو ملک کے استحکام ویک جہتی کے نام پر جبراََ مسلط کیا گیا۔ اب تو ملک میں آر ایس ایس کی سرپرستی میں بی جے پی حکومت کررہی ہے۔این آرسی اور شہریت ترمیمی قانون کے تناظر میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں کس طرح کا دستور اور قانون نافذ کرنا چاہتی ہے۔
ہمارے آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کی مختلف دفعات کے باوجود بڑے پیمانے پروطن عزیزمیں انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی ہور ہی ہے، کہیں بولنے پر پابندی ہے تو کہیں کھانے اور لباس پر پابندی ہے۔ کبھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے، تو کبھی مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی ناپاک کوشش ہورہی ہے۔ غرض وطن عزیز میں اقلیتوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکاہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی بھی حکومت کو جمہوری حکومت اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب وہ انصاف، آزادی،مساوات، اور اخوت کے تقاضوں کو پوار کر سکے؛ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
🔵 انصاف:
اس میں سماجی، معاشی، سیاسی انصاف شامل ہیں۔
🟢آزادی:
اس ضمن میں خیالات،اظہار رائے،عقیدہ،ایمان اور عبادت کی آزادی شامل ہے۔
🔵 اخوت:
اس کے تحت ہرشہری کا وقاراور ملک کی سالمیت کے لیے ممکنہ کوششیں شامل ہیں۔

   اب ہم ان نکات کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ آزاد ی ہند کے بعد سے آج تک حکمران جماعتوں نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ دستوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کبھی ایماندارنہ کوشش نہیں کیں۔مسلمانوں کے سماجی انصاف کی بات کی جائے تو آج بھی تقسیم ہند کا جواز دیتے ہوئے سب سے بڑی اقلیت کو اس کا مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے جبکہ یہ بات عیاںہے کہ1857کے غدر میں سب سے زیادہ مسلمانوں نے خون بہایا اور آزاد بھارت کے لیے اپنی جان و مال تک کو نچھاور کردیا۔ لاکھوں علماء کرام، صحافیوں اور دانشوروں کو انگریزوں نے شہید کیا اس کے برعکس زعفرانی طاقتیں انگریزی حکومت کی دلالی کرتی رہیں۔

باشندگانِ وطن کے بنیادی حقوق:
آبادی کے لحاظ سے ہندوستان، دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی، غیرمذہبی جمہوریت ہے، اس کے دستور و آئین کے کچھ اہم امتیازات ہیں، یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کا بھر پور حق حاصل ہے اور یہاں عوام ہی کو سرچشمۂ اقتدار و اختیار مانا جاتا ہے، اس طرح تمام باشندے بلاتفریق مذہب و ملت ’’ایک مشترکہ جمہوریت‘‘ کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
ذیل میں شہریوں کے چند اہم اور بنیادی حقوق قدرے تفصیل کے ساتھ درج کیے جارہے ہیں؛جن کے بہ غور مطالعہ سے یہ بات پایۂ ثبوت کوپہونچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاس دار اور مذہبی آزادی کا علم بردار ہے۔

حق مساوات:
ملک میں رہنے والے تمام ہی افراد باعتبار انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں اور آئینی اعتبار سے ان کے اندر کسی قسم کی اونچ نیچ، ادنیٰ و اعلیٰ کی کوئی تفریق نہیں۔ حقوق و اختیارات میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آئین واضح طور پر مساویانہ حقوق کا پاسدار ہے جیسا کہ آئین کی دفعہ 15,14 میں کہا گیا ہے۔ ’’مملکت کسی شخص کو ملک کے اندر قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔‘‘ اور ’’مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بناء پر کسی طرح کا امتیاز نہیں برتے گی۔‘‘ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تمام باشندگان کو ملے ہوئے حقوق کا ذکر آئین کی دفعہ 16میں کیاگیا ہے۔ ’’تمام شہریوں کو مملکت کے کسی عہدے پر ملازمت یا تقرر سے متعلق مساوی موقع حاصل ہوگا۔‘‘

حق آزادی:
حق مساوات کے ساتھ ہی ایک جمہوری آئین کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہاں کے رہنے والے مختلف قسم کی آزادی کے حامل ہوں۔ ان میں اظہار رائے کی آزادی بھی ہوسکتی ہے اور مختلف جلسے، انجمنیں اور جلوس وغیرہ منعقد کرنے، تنظیمیں اور تحریکیں بنانے اور چلانے، آزادانہ طور پر پورے ملک کا سفر کرنے، نیز سرمایہ کاری کی آزادی اور جان و مال کی آزادی بھی ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے باوقار آئین میں کہا گیا ہے۔ دفعہ 19 تا 22 میں لکھا ہے ’’مملکت کے تمام شہریوں کو حق حاصل ہوگا۔‘‘
(الف) مملکت کے ہرایک حصہ میں تقریر اور اظہار کی آزادی کا۔
(ب) امن پسند طریقے سے اور بغیر ہتھیار کے جمع ہونے کا۔
(ج) انجمنیں یا یونین قائم کرنے کا۔
(د) بھارت کے سارے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے کا۔
(ھ) بھارت کے کسی بھی حصے میں بود و باش کرنے اور بس جانے کا۔
(ی) کسی پیشے کے اختیار کرنے یا کسی کام دھندے، تجارت یا کاروبار چلانے کا۔

مذہب کی آزادی:
انسانی فطرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے حساس مذہبی جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہی مختلف افراد میں جنگ و جدل کاجذبہ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان ملکوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار رہتے ہوں۔ ہمارے ملک کا اس سلسلہ میں بہت نمایاں مقام ہے ؛کیونکہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔اس سلسلے میں ہمارے سیاسی قائدین نے بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا کہ انھوں نے یہاں کسی مذہب کو خاص اہمیت نہ دے کر سب کو برابر اوریکساں حقوق دئیے۔ اس لئے آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے، اس کی تبلیغ و تشہیر کرنے اوراس کے اصولوں پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 25 میں کہا گیا ہے۔ ’’تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے۔ اس کی پیروی کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔‘‘

ثقافتی اور تعلیمی حقوق:
ہمارا ملک مختلف تہذیبوں کا امین اور مختلف تعلیمی نظریات کا گہوارہ ہے اسی وجہ سے یہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام ہی لوگوں کو اپنی تہذیب وثقافت اور علم و ادب کی حفاظت کو فروغ کے حقوق حاصل ہوں۔ یہاں کے ہرایک شہری کوحصول تعلیم کی آزادی اور اپنے شعائر و ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کااختیار دیا جائے۔ اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 29 میں کہا گیا ہے۔ ’’بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقے کو جس کی اپنی جداگانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہوگا۔‘‘ آئین کی دفعہ 30 میں یہ بھی کہا گیا ہے۔ ’’تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کے نام پر ہوں یا زبان کے، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اوران کے انتظام کاحق حاصل ہوگا۔‘‘

جائیداد کا حق:
مملکت میں رہنے والوں کو آئینی اعتبار سے یہ حق بھی دیاگیاہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیاجاسکتا ہے اور اسے اپنی جائیداد فروخت کرنے یاکسی دوسرے کی جائیداد خریدنے خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہو کا اختیار حاصل ہوگا۔ ملک کے ہر شہری کویہ بھی حق دیاگیاہے کہ وہ متعلقہ قوانین کی رعایت رکھتے ہوئے اپنی املاک و جائیداد اور ان سے حاصل شدہ آمدنی کو کسی بھی طرح اپنے اوپر خرچ کرسکتا ہے۔ یا کسی تنظیم، تحریک یا کسی اور کو ملک کی فلاحی و رفاہی کاموں پر خرچ کرسکتا ہے۔

دستوری چارہ جوئی کاحق:
ہمارے آئین کے تیسرے حصے میں ضبط کئے گئے حقوق کو بحال کرانے اوران کی حفاظت کے لئے سپریم کورٹ و دیگر عدالتوں سے چارہ جوئی کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ متعلقہ عدالتوں کو ان حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لئے ہدایات یا احکام یا مختلف خصوصی فرمان جاری کرنے کااختیار دیاگیا ہے۔ آئینی اعتبار سے عدالتی چارہ جوئی کے حق کو محض دستور میں بیان کی گئی متعلقہ دفعات کے تحت ہی معطل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو یہ حق دیاگیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سے بنیادی حقوق کس حد تک کسے دئیے جائیں۔ غرض کہ آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو ہی کسی بھی معاملے میں دستوری چارہ جوئی کا پورا پورا حق دیاگیا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے باوقار آئین میں جس طرح سے عوام الناس کو بالادستی حاصل ہے اور یہاں کے رہنے والوں کے بنیادی حقوق کا جس طرح لحاظ رکھا گیا ہے اس بنا پر بلا خوف تردید یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاس دار اوراس کا سچا علمبردار ہے۔ضرورت صرف اس کے غیرجانب دارانہ اور عادلانہ نفاذ کی ہے؛جس کے لیے انتھک محنت و مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے(بہ حوالہ آئین ہند؛حقوق انسانی کا سچا علم بردار، ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ2، جلد: 90)

کرنے کا اہم کام:
اس وقت ہم کروڑوں مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دستورو آئین سے متعلق بالکل معلومات حاصل نہیں، ہمیں اس بات کا پتہ ہی نہیں کہ بحیثیت شہری اور مسلمان ہونے کے ہمیںکیاکیا حقوق حاصل ہیں،ہمیں اس کی خبر ہی نہیں کہ آئین نے ہمیں کیا دیا ہے اور ہم دی گئی مراعات سے کیا فائدہ اٹھارہے ہیں اور کیا اٹھاسکتے ہیں؟؟۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کیا جائے اور موجودہ حالات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم آج کے دن (۲۶؍جنوری) آئین ہند کا بطور خاص مطالعہ کریں، اس حوالے سے ناخواندہ لوگوں میں شعور بیدار کریں،ملی تنظیمیں اس سلسلہ میں ورک شاپس کا انعقاد عمل میں لائیں، تب کہیں جاکر ہم مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور بلاخوف ملک میں ہورہی تاناشاہی کا جواب دے سکتے ہیں۔

جمع وترتیب: عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

  • سوشل میڈیا ڈیسک آپ انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*