دستور تبدیل کرنے کی باتیں

   

بی جے پی اور اس کے قائدین اکثر وبیشتر اپنے پوشیدہ عزائم کو ظاہر کرتے ہوئے عوامی موڈ کو جانچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کہیںعام انداز میں کی گئی بات کو اچانک ہی ایک بڑا مسئلہ بناتے ہوئے اس کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے ۔ جس وقت سے لوک سبھا انتخابات کا ماحول گرم ہونا شروع ہوا ہے اور سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں بی جے پی کے مختلف قائدین کی جانب سے دستور میں تبدیلی کی باتیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ حالانکہ بی جے پی نے ابھی دستور تبدیل کرنے کی بات باضابطہ طور پر نہیں کی یہ لیکن ایسا لگتا ہے کہ عوام میں یہ بات پیش کی جا رہی ہے کہ بی جے پی آئندہ انتخابات میںاگر اپنی توقع کے مطابق کامیابی حاصل کرتی ہے تو دستور میں تبدیلی بھی کی جائے گی تاکہ اپنے عزائم اور منصوبوں پر عمل کیا جاسکے ۔ بی جے پی کے عزائم اور منصوبے کیا کچھ ہیںیہ تو سارا ملک جانتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی منصوبے ہوسکتے ہیں جن کا آر ایس ایس اور بی جے پی نے ابھی کھل کر اظہار نہیں کیا ہے اورا س کیلئے وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ تاہم یہ بات ضرور تقویت پاتی جارہی ہے کہ بی جے پی آئندہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک کے دستور میں تبدیلی کے ارادے رکھتی ہے ۔ چند ہفتوں قبل بی جے پی کے ایک لیڈر اننت کمار ہیگڈے نے بھی کہا تھا کہ بی جے پی اگر دو تہائی اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو پھر وہ ملک کے دستور کو تبدیل کرکے رکھ دے گی ۔ بی جے پی نے حالات اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اننت کمار ہیگڈے کو اس بیان کی بنیاد پر لوک سبھا ٹکٹ سے محروم کردیا تھا ۔ اس طرح بی جے پی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ دستور کی تبدیلی اس کا منصوبہ نہیں ہے ۔ تاہم اب ایک اور ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہونے لگا ہے جس میں بی جے پی کی ایک خاتون امیدوار جیوتی مردھا نے بھی کہا ہے کہ بی جے پی دستور میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے ۔ کچھ کام دستور میں تبدیلی کے بغیر ممکن ہیںہیں اور اس کیلئے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میںدرکار اکثریت کی ضرورت ہے ۔ جیوتی مردھا ناگور لوک سبھا حلقہ کی امیدوار ہیں ۔
جیوتی مردھا کو اس ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ملک کے مفاد میں کچھ سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کیلئے دستور میں تبدیلی بھی ضروری ہوتی ہے ۔ اگر دستور میں تبدیلی کرنی ہے تو ہمیںراجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں میں درکار اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کا یہ بیان بی جے پی کے منصوبوںکو آشکار کرتا ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی لیڈر نے اس طرح کا بیان دیا تھا ۔ بی جے پی نے اننت کمار ہیگڈے کے معاملے میںصرف انہیںٹکٹ سے محروم کیا تھا اور ان کے بیان سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا اور انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا ۔ اب جیوتی مردھا تو باضابطہ امیدوار ہیں۔ انہوں نے اگر اس طرح کا بیان دیا ہے تو یہ بی جے پی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بیان کی مذمت کرے ۔ جیوتی مردھا کی امیدواری کو منسوخ کردے اور یہ باضابطہ اعلان کرے کہ بی جے پی دستور میں تبدیلی کے منصوبے نہیں رکھتی ۔ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو اس انتہائی اہمیت کے حامل مسئلہ پر لب کشائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتہائی معمولی باتوں پر رد عمل ظاہر کرنے والے وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو اس معاملے پر خاموش نہیںرہنا چاہئے ۔ انہیں ملک کے عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شبہات اور سوالات کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس ملک میں دستور سب سے اہم ہے اور اگر اس کو تبدیل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں تو عوام کے ذہنوں میں کئی شبہات جنم لیتے ہیں اورا ن کو دور کیا جانا چاہئے ۔
جہاں تک ملک کے عوام کی بات ہے تو انہیں بھی اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ دستور میں تبدیلی کی باتیں کرنے والوں سے چوکس رہیں۔ ہندوستان ساری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔ ہمارا دستور سارے ہندوستانیوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسے مقدس بھی کہا جاتا ہے ۔ ایسے میں دستور کو ہی تبدیل کرنے کی باتیں ناقابل قبول ہونی چاہئیں اور ایسی باتیں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ عوام کے ذہنوں میں موجود شبہات کو دور کرنے کیلئے بی جے پی کو جیوتی مردھا کی امیدواری منسوخ کرتے ہوئے باضابطہ پارٹی کے موقف کا واضح انداز میں اظہار کیا جانا چاہئے ۔