صحرا بھی مہک اُٹھے زنداں بھی چمک اُٹھا
طوفانِ بہار اَب کے رُکتا ہوا آیا ہے
دستور پسند عوام کو سپریم کورٹ سے اُمید
شہریت ترمیمی بل پر روک لگانے سے سپریم کورٹ کے انکار اور احتجاجی صورتحال کے تھم جانے کے بعد ہندوستان کے اندر اپنی مرضی چلانے والی طاقتوں کو کھلی چھوٹ مل جائے گی ۔ یہ بڑے ہی دکھ کی بات ہے کہ ملک کی عدلیہ میں دستور کے مغائر فیصلوں کو نظر انداز کررہی ہے ۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مرکز پر برسر اقتدار پارٹیوں نے اس ملک کے دستور ، جمہوری اقدار اور عدلیہ کو اپنی نوک پر رکھا ہے ۔ شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) کے خلاف ملک بھر جاری احتجاج کو اگرچیکہ اخبارات ، ٹیلی ویژن چیانلوں پر سرخیوں میں جگہ مل رہی ہے لیکن جب یہ احتجاج سرد پڑ جائے گا تو کیا ہوگا ۔ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف داخل کردہ درخواستوں کو سماعت کے لیے قبول تو کرلیا گیا مگر قانون پر عمل آوری کو روکنے کے لیے حکم التواء دینے سے انکار کردیا گیا ۔ سپریم کورٹ اپنے قانونی فرائض کو دیانتداری سے انجام دے رہا ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن جس طریقہ سے سی اے اے کے مسئلہ کو دستوری قانونی ادارے نظر انداز کررہے ہیں وہ بڑی بدبختانہ بات ہے ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان سے قانون کو منظور کرلینے والی حکومت کے ہاتھ ایک مضبوط ہتھیار مل چکا ہے کیوں کہ صدر جمہوریہ نے بھی اس متنازعہ قانون پر دستخط کر کے اپنی جانب سے توثیق کی مہر لگادی ہے ۔ پنجاب اور مغربی بنگال جیسی دونوں ریاستوں نے اس قانون کو روبہ عمل لانے سے انکار کردیا اور ان ریاستوں کا یہ فیصلہ بھی کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ۔ وقت آنے پر ریاستوں کو مرکز کی ہدایت پر عمل کرنا پڑے گا ۔ سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ ہی سی اے اے پر روک لگانے سے گریز کرے تو اس قانون کی مخالفت کرنے والے کہاں جائیں گے ۔ اس قانون سے ہونے والے نقصانات اور ملک کی تاریخی روایات کو دھکہ پہونچانے والے واقعات ہر روز رونما ہوں گے تو ہندوستان کے اندر انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی ۔ ایک منتشر قوم کمزور کہلاتی ہے ۔ جن ریاستوں میں شہریت ترمیمی قانون پر عمل کرنے سے انکار کیا ہے ، ان کا موقف آگے چل کر کمزور پڑ سکتا ہے ۔ البتہ ریاست پنجاب کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ کی ہدایات کو نظر انداز کردیا تھا ۔ ستلج جمنا کنال پر سپریم کورٹ کی رولنگ کو روبہ عمل لانے سے پنجاب کے انکار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون پر عمل نہ کرنے کے فیصلہ پر وہ قائم رہے گی ۔ ہندوستان میں صرف ایک طبقہ مسلمان کو نشانہ بنانے کے لیے برسر اقتدار طاقتیں اپنی ساری توانائی جھونک رہی ہے ۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جن حکمرانوں کو ملک کی ترقی ، خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہئے آج وہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جانے والے فیصلے کررہے ہیں ۔ ملک میں اگر شہریت ترمیمی قانون کو کوئی ادارہ روک سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف سپریم کورٹ ہے مگر سپریم کورٹ کو بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی رسی سے باندھ دیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں سی اے اے کے خلاف 55 درخواستیں داخل کی گئی ہیں اور عدالت نے اس کی آئندہ سماعت 22 جنوری مقرر کی ہے ۔ شہریت ترمیمی قانون کے تعلق سے اس ملک کا ذی شعور اور سیکولر شہری یہ ہرگز نہیں مانے گا کہ یہ قانون سیکولر ہے کیوں کہ اس قانون کی اصل بنیاد ہی مذہب ہے ۔ مذہب کی آڑ میں ہندوستان کے دستور کے اصل روح کو مسخ کردیا جارہا ہے ۔ دستور کے بنیادی شیڈول میں ہندوستان کی شہریت مذہب کی بنیاد پر نہ دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس حکومت نے دستور کو ہی بالائے طاق رکھدیا ہے ۔ یہ قانون سراسر مسلمانوں کے خلاف امتیاز پیدا کرتا ہے ۔ بی جے پی حکومت کے ارادوں کی نہ صرف ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے مذمت کی ہے بلکہ قانون سازوں ، سیول لبرٹیز گروپس اور دنیا بھر کی سیاسی پارٹیوں نے بھی بی جے پی حکومت کے کالے منصوبوں کی مذمت کی ہے ۔ سپریم کورٹ کو بھی اس صف میں شامل ہو کر مرکزی حکومت کے اس متنازعہ قانون کو روکنے کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کی ڈیویژن بنچ نے درخواستوں کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ عدالت عظمیٰ سے ہی ملک کے دستور پسند عوام کو راحت ملے گی ۔۔