بطور پر سابق جنرل سکریٹری جنتا دل(سکیولر) وہ پچھلے سال کرناٹک میں کانگریس اور جنتا دل(ایس) اتحادی حکومت کی تشکیل میں سرگرم ٹیم میں اہم رول اد ا کیاتھا۔
حالانکہ انہوں نے بی ایس پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور پارٹی کے لوک سبھا لیڈر ہیں‘
امرواہا کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش عی کا احساس ہے کہ کرناٹک کاسیاسی بحران سے ظاہر ہوتا کہ کس طرح قانون سازی کو نقصان پہنچایاجارہا ہے اورگورنر کے رول پر انہوں نے سوال کھڑا کیاہے۔
سری پارنا چکرورتی کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں تاہم انہوں نے کہاکہ اس بات کو تسلیم کیاہے کہ شروعات سے ہی اتحادی حکومت میں داخلی خلفشار رہا ہے اور سابق چیف منسٹر سدارامیہ کو یہ ہضم نہیں ہورہاتھا
آپ کرناٹک میں اتحادی حکومت کی تشکیل دینے والے اہم لوگوں میں شامل ہیں۔ اب آپ کو کیسا محسوس ہورہا ہے؟۔
کرناٹک میں جو کچھ ہورہا ہے کہ وہ درحقیقت غیر متوقع ہے۔ میرے جیسے لوگ چاہتے ہیں کہ یہ اتحادی حکومت اپنے معیاد پوری کرے۔
مگر غیرمتوقع طور پر جس طرح کے حالات دیکھائی دے رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت پانچ سالوں تک نہیں چلے گی۔
اس مرتبہ شائد بات آگے بڑھ جائے مگر تلوار سر پر لٹکی رہے گی۔ سب اس بات سے اچھی طرف واقف ہیں کہ پہلے دن سے بی جے پی اتحادی حکومت کا کھیل بگاڑنے کی کوشش کررہی ہے۔
ان کا نعرہ دراصل یہ ہے کہ۔کانگریس مکت بھارت کی شکل میں وہ چاہتے ہیں اپوزیشن مکت بھارت کرے۔دیگر ممالک کی ڈیموکریسی وہ چاہتے ہیں جہاں پر پارلیمنٹ صرف برائے نام رہے
مگر اس طرح کی بات بھی کی جارہی ہے کہ داخلی خلفشار اتحادی حکومت کے لئے نقصان کی شروعات ہے۔
یہ سچ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اسمبلی الیکشن میں دو سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے مد مقابل الیکشن لڑا ہے۔
لہذا میں کوئی نہیں ہوں اس پر زیادہ تبصرہ کروں۔
جس طریقے سے دونوں پارٹیوں نے اسمبلی الیکشن دشمن میں لڑا اور غیر ارادتی طور پر لوک سبھا الیکشن بھی لڑا‘ اس میں کوئی درست انداز کا کوراڈنیشن نہیں تھا
ایک کانگریس کے لیڈر نے حال میں ہی کہا کہ سابق چیف منسٹر سدارامیہ چاہتے کہ وہ اپوزیشن لیڈر بنیں۔
گوڑا فیملی سے ان کے ذاتی مخاصمت ہیں۔
پہلے دن سے سابق چیف منسٹر کو اتحادی حکومت ہضم نہیں ہورہی تھی۔ کچھ لوگوں کا ایسا کہنا ہے۔
اس میں کئی حقائق بھی سامنے ائے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ مذکورہ کانگریس قومی سطح پر وہپ حاصل کرنے کے موقع پر نہیں پہنچی
فی الحال کانگریس بھی پریشان ہے۔ اس کی دوسری وجہہ یہ تو نہیں ہے؟۔
ہوسکتا ہے یہ بھی ایک وجہہ ہے۔ مگر کرناٹک کے حالات پہلے روز سے الگ ہیں۔ بالاخراس وقت کانگریس نے مقامی قائدین کا ایک حصہ کے خلاف جاکر فیصلہ لیاتھا۔
مگر انہیں اپنے ساتھ میں بھی رکھا تھا
بی جے پی نے یدایوراپا کو ایک دن کا چیف منسٹر بننے کا موقع فراہم کیا
آج کی سیاست کا یہی بدبختانہ حصہ ہے قانون سازی کو طاق پر رکھ دیاگیا ہے۔
اگر پارلیمنٹ کا حال بھی دیکھیں تو ایسا ہی ہے‘ اہمیت کو ختم کردی گئی ہے۔
وہ اپوزیشن کی آواز سننے دینا بھی نہیں چاہتے۔ میری گذارش ہے کہ مخالف سیاسی انحراف قانون میں ترمیم لائی جائے۔
دسویں شیڈولٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔یہ جمہوری کا مذاق ہے۔ اگر آپ برسرعام خرید وفروخت کریں گے تو مخالف سیاسی انحراف قانون کی کیاضرورت ہے؟
۔اور میں نے پارلیمنٹ میں بھی یہ مسئلہ اٹھایاہے۔
کئی اراکین پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں بی جے پی کے ساتھ جارہے ہیں۔ آپ کی سونچ میں یہ کیاہے؟۔
دوبارہ دسویں شیڈول میں ترمیم کی بات آتی ہے۔ راتوں رات انہوں نے ٹی ڈی پی اراکین کو شامل کرلیا۔ یہ ہول سیل میں خرید ہوئی۔
اسمبلی گوا کا بھی یہی حال تھا‘ ہول سیل خریدی پیش ائے۔یہ ہمارے ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ اگرپارلیمنٹ او راسمبلی میں کوئی اپوزیشن آواز نہیں رہی تو ڈیموکرسی کے معنی کیارہ جائے گا؟