نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتی کامرانیوں کا اندازہ اس ہمہ گیر تبدیلی سے لگایا جاسکتا ہے جو نبی اکرم ﷺکی دعوت و تبلیغ کے نتیجہ میں آپ کی حیات طیبہ میں ہی برپا ہوئی اور جس کے نتیجہ میں عرب کے ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔
آپ ﷺکی تبلیغ کو وہ کامیابی نصیب ہوئی جو دنیا کی تاریخ میں کسی بھی پیغمبر اور مصلح کی دعوت و تبلیغ کو نصیب نہیں ہوئی۔ چنانچہ قرآن مجیدکی آیات اور سیرت طیبہ کی تفصیلات سے نبی اکرم ﷺ کے طریقۂ تبلیغ اور آپ کے اسلوب دعوت کی خصوصیات واضح ہوتی ہیں :
۱۔ اصولِ تدریج : آپ ﷺنے مکی اور مدنی ادوار میں تدریج (رفتہ رفتہ) کے اُصول کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ اسی بناء پر ۱۳ سالہ مکی دور میں صرف توحید، رسالت، آخرت اور مسئلہ تقدیر جیسے بنیادی عقائد کی تبلیغ کی گئی اور دوسرے احکام مدنی دور میں دھیرے دھیرے بتدریج دیئے گئے۔ اس کی حکمت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یوں بیان فرماتی ہیں کہ قرآن کریم میں جو پہلی سورت نازل ہوئی اس میں (جنت اور) دوزخ کا ذکر ہے۔ جب معتدبہ لوگ اسلام کے دائرے میں آگئے تو پھر حلال و حرام کے احکام دیئے گئے۔ اگر شروع میں امتناعی احکام آجاتے تو لوگوں پر گراں گزرتے اور تعمیل میں تامل بلکہ انکار ممکن تھا۔ (مفہوم حدیث بخاری)
آپ ﷺنے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کرتے وقت بھی تبلیغ میں اسی اصولِ تدریج کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ آپ ﷺنے فرمایا : پہلے ان کو توحید و رسالت کی دعوت دینا اگر وہ مان جائیں تو پھر ان کو نماز کی تعلیم دینا اگر وہ قبول کرلیں تو پھر ان کو فریضۂ زکوٰۃ سے آگاہ کرنا (البخاری)
۲۔ اصولِ حکمت: آپ ﷺنے تبلیغ میں حکمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ حکمت کے یوں تو بہت سے معانی بیان ہوئے ہیں مگر ابوحیان الاندلسی (صاحب السجر المحیط) کی یہ تعبیر عام طور پر قبول کی جاتی ہے کہ حکمت سے مراد ایسا کلام یا سلوک جس میں اکراہ و زبردستی کا پہلو موجود نہ ہو اور طبع انسانی اسے فوراً قبول کرلے اور وہ عقل و قلب ہر دو کو متاثر کرے۔ اس طرح حکمت اس درست کلام اور مؤثر طرز ابلاغ کا نام ہے جو انسان کے دل میں اُتر جائے اور مخاطب کو مسحور کردے۔ اس بارے میں آپؐ کو جو اختصاص و امتیاز حاصل تھا اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ عرب کے مشہور خطیب خمادالازدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ ﷺکا اثرانگیز خطبہ سنا تو اعتراف کیا کہ ایسا کلام نہ تو کاہنوں کے پاس ہے، نہ جادوگروں اور شاعروں کے پاس اور انہوں نے فوراً اسلام قبول کیا۔ کم عرصہ میں وسیع پیمانہ پر پھیلنے میں نبی اکرم ﷺکے حکیمانہ طرز تخاطب اور حکیمانہ طرزمعاشرت کا نمایاں رول رہا ہے۔
۳۔ اصول موعظۂ حسنہ : نبی اکرم ﷺکی تبلیغی زندگی کی ایک اہم خصوصیت موعظۂ حسنہ ہے جس کے معنی کسی کی خیرخواہی کی بات کو اس طرح اس کے سامنے بیان کرنے کے ہیں جس کا ناگوار حصہ بھی اس کیلئے قابل قبول ہوجائے اور مخاطب کا دل اس کی قبولیت کے لئے نرم ہوجائے۔ ’’الحسنۃ‘‘ کے معنی ہیں کہ اس کا عنوان بھی ایسا ہو کہ جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہوجائے۔ آپ ﷺکی دعوت و تبلیغ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپؐ کا انداز تبلیغ مخاطب کی خیرخواہی، بھلائی کا ایسا دلکش اور خوبصورت اسلوب لئے ہوتا تھا کہ سوائے ہٹ دھرم اور ضدی شخص کے کوئی انسان بھی اس کے ماننے سے انکار نہ کرتا تھا۔
۴۔ آپ ﷺکی تبلیغی زندگی کی ایک اور خصوصیت ’’مجادلہ محسنہ‘‘ ہے یعنی مخاطب کو مطمئن اور قائل کرنے کے لئے محبت، اعتماد، حسن اخلاق، معقول دلیل اور عمدہ استدلال سے کام لیا جائے۔ سیرت طیبہ میں مدینہ منورہ کی زندگی کے دوران آپ ؐ کا یہودیوں اور نجرانی عیسائیوں کے وفد سے مناظرہ اس کی نمائندہ مثالیں ہیں۔
۵۔ اصولِ قولِ لیّن (نرم گفتگو) : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغی زندگی کا ایک اور اصول قولِ لیّن ہے۔ قولِ لیّن کا مطلب نرم بات ہے۔ قرآن مجید میں آپ ﷺکے اس وصف خاص کا ذکر اس طرح ہے۔ فَبِمَا رَحْـمَةٍ مِّنَ اللّـٰهِ لِنْتَ لَـهُـمْ ۖ الایۃ (سورۃ آل عمران : ۱۵۹) یعنی یہ اللہ کی رحمت کے سبب ہی سے ہے کہ آپ ان کے لئے نرم ہوگئے ہیں اور اگر آپ تندخو، سخت طبع ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ سورۃ التوبۃ میں آپ ﷺکو ایمان والوں کے لئے رؤف و رحیم اور سورۃ الانبیاء میں ’’رَحْـمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ‘‘ قرار دیا گیا۔
۶۔ اصولِ تالیف قلوب : (دلوں میں محبت پیدا کرنا) سرور کائنات ﷺکی ایک تبلیغی خصوصیت آپ ﷺ کا ’’اصول تالیف قلوب‘‘ ہے یعنی آپ ﷺکا وہ سلوک جو غیرمسلموں اور بعض نومسلموں کے ساتھ اس غرض سے آپ ﷺ نے کیا کہ ان کو اسلام کی طرف رغبت اور اس پر استقامت ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے اپنے قدیمی دشمنوں کی عام معافی کا اعلان فرمایا۔ یہ اقدام تالیف قلوب (اسلام کی محبت پیدا کرنے) میں بہت مددگار ہوا اور صرف چند دنوں ہی میں دو ہزار قریش مسلمان ہوگئے۔ غزوۂ حنین کی فتح کے بعد مالِ غنیمت میں سے آپ ﷺ نے بالخصوص نومسلموں کو زیادہ حصہ دیا جس کا مقصد بھی تالیف قلوب تھا۔ آپ ﷺ کے اس طرزعمل نے ان لوگوں کو اسلام اور پیغمبراسلام سے مخلص بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
۷۔ اُصول شفقت ورافت: آپ ﷺکی اہم خصوصیت اُصول شفقت و رافت بھی ہے۔ آپ ﷺسے جس نے بھی کوئی معاملہ کیا یا آپ ﷺ سے گفتگو کی یا آپ ﷺ کی باتیں سنیں اُس نے آپ ﷺ کو مجسمۂ شفقت و رافت پایا۔ آپ ﷺ کی انسانیت سے محبت و شفقت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺفرط رحمت سے لوگوں کے اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ مسلسل غم و فکر میں رہتے جس پر قرآن مجید میں آپ ﷺ کو مخاطب کیا گیا : کیا آپ اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے اپنے آپ کو ہلاک کرڈالیں گے ۔ (سورۃ الکھف ؍ ۶)
۸۔ پرحکمت اندازِ تبلیغ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کا مزاج، ان کی افتاد طبع اور موقع محل کے مطابق ان سے کلام فرماتے تھے۔ حالات و طبائع میں فرق کے ساتھ آپ کے طریقۂ تبلیغ میں تبدیلی آجاتی تھی۔ آپ ﷺ نے ہر شخص سے وہی سلوک کیا جس کا وہ حقدار تھا۔ آپ ﷺ ہر شخص سے کامل بشاشت، وفورمسرت اور مسکراتے چہرے کے ساتھ پیش آتے جس سے لوگوں کے دل باغ باغ ہوجاتے اور اگر مخاطب ترش روئی یا تندخوئی سے پیش آتا تو بھی آپ ﷺ قطعاً برا نہ مانتے۔ اگر نازیباً گفتگو کرتا تو تحمل فرماتے۔
۹۔ تائید و نصرت الہٰی : ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھی جائے کہ ہادی عالم ﷺکی یہ بے مثال کامیابی نصرت الہٰی اور تائید غیبی کا مظہر تھی۔ آپ ﷺکے ساتھ تائیدایزدی شامل حال رہی اور آپ ﷺکی دعوت سارے عالم کے لئے تھی اور آپ کی دعوت کا دائرہ بھی تمام عالم انسانیت کے لئے تھا۔ آپ ﷺکی دعوت و تبلیغ کی کاوشوں کا اندازہ لگانا کسی فرد بشر کے لئے ممکن نہیں۔
(ماخوذ از : سیرۃ خیرالانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)