دلتوں کے دِل دوبارہ جیتنے کانگریس کی کوشش

   

وینکٹ پارسا
حال ہی میں سینئر کانگریس لیڈر کوپولو راجو کی کتاب ’’دِی دلت ٹروتھ‘‘ کی راہول گاندھی کے ہاتھوں رسم اجراء انجام پائی۔ کانگریس دلتوں کے دِل جیتنے، ان کی تائید حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ دلتوں کو کانگریس کی ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ گاندھی جی نے چھوت چھات کے خلاف تاریخی لڑائی کا آغاز کیا تھا اور وہ لڑائی مہاتما گاندھی نے اپنے تعمیری پروگرام کے ایک حصہ کے طور پر شروع کی تھی۔ ایک طرف انہوں نے ملک کو آزادی دلانے سیاسی مشن کو آگے بڑھایا، دوسرے دلتوں کے خلاف چھوت چھات کے رجحان کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی۔ اپنی اس مہم کو کامیاب بنانے گاندھی جی نے دلتوں کو بااختیار بنانے کی خاطر بے شمار تہذیبی، ثقافتی اور سماجی اقدامات کئے۔ گاندھی جی کی شروع کردہ اُس لڑائی کو اندرا گاندھی نے آگے بڑھایا اور دلتوں کو اقتصادی و سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ دلتوں نے کانگریس سے دوری اختیار کرنی شروع کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دلتوں نے کانگریس سے دوری کیوں اختیار کی اور انہیں کیسے کانگریس کے دوبارہ قریب لایا جاسکتا ہے جیسا کہ میں نے سطورِ بالا میں لکھا ہے کہ 9 اپریل کو راہول گاندھی نے کوپولو راجوکی کتاب ’’دی دلت ٹروتھ‘‘ کی رسم اجراء انجام دی۔ پہلا حصہ یہ ہے کہ کانگریس نے دلتوں کیلئے آخر کیا کیا اور کانگریس نے جو کچھ بھی کیا، اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے حصہ میں یہ بتایا گیا کہ کانگریس دلتوں کے ساتھ تعلقات سے محروم ہورہی ہے اور وہ کیسے دلتوں کو دوبارہ اپنا حامی بنا سکتی ہے، درحقیقت اپنی کتاب میں کے راجو نے دامودھرم سنجیویا کی مثال پیش کی جنہیں آندھرا پردیش کے پہلے دلت چیف منسٹر ہونے کا اعزاز ملا۔ ڈی سنجیویا صرف 40 برس کی عمر میں عہدۂ چیف منسٹری پر فائز ہوئے اور 1960-62ء تک چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ 1962-63ء انہیں کانگریس کے پہلے دلت صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ منڈل کمیشن سے کئی برس قبل آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے ڈی سنجیویا نے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں او بی سیز کیلئے 27% تحفظات متعارف کرائے۔ جہاں تک دلت ، مسلم اور برہمن رائے دہندوں کا سوال ہے، یہ کانگریس کی انتخابی بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتے تھے، لیکن اب دلت ، مسلم اور برہمن رائے دہندے کانگریس سے دور ہوچکے ہیں۔ دلتوں نے خود کو بی ایس پی کے قریب کرلیا، مسلمانوں نے تیسرے محاذ کو اپنالیا اور برہمنوں کا جھکاؤ بی جے پی کی جانب ہوگیا۔ ان حالات میں کانگریس نے راہول گاندھی کی قیادت میں اپنے کھویے ہوئے ووٹرس کی تائید دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے اور اس اہم کام کیلئے راہول گاندھی نے کے راجو کا انتخاب کیا۔ انہیں حال ہی میں درج فہرست طبقات و قبائل ، دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتوں سے متعلق پارٹی کے شعبوں کا مبصر مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کے راجو نے قومی مشاورتی کونسل کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہے۔ یہ کونسل سونیا گاندھی کی صدارت میں کام کررہی تھی۔ بعد میں اگست 2013ء میں بھی کے راجو کو اے آئی سی سی ۔ ایس سی ڈپارٹمنٹ کا صدرنشین مقرر کیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ راجو کانگریس کیلئے کافی اہمیت رکھتے ہیں اور پارٹی میں ان کی خدمات نہ صرف دلتوں کے دِل جیتنے بلکہ بہوجن باالفاظ دیگر دلتوں، قبائیلیوں، دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے دِل جیتنے کیلئے حاصل کی گئی ہیں۔ جہاں تک ہمارے ملک کے رائے دہندوں کا سوال ہے، 87% رائے دہندے دلتوں، آدی واسیوں ، دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتوں پر مشتمل ہے اور ان طبقات کو قریب کرنا قومی سطح پر کانگریس کے احیاء کیلئے کافی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ 2024ء میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگریس نے ہمیشہ دلتوں اور کمزوروں کا ساتھ دیا ہے۔ گاندھی جی نے ہریجنوں کی دلجوئی کی خاطر مندروں میں ان کے داخلوں کیلئے تحریک چلائی اور دیگر ذات کے ہندوؤں کے ساتھ مساوات کیلئے دلتوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ گاندھی جی کے ان اقدامات کو بعد میں اندرا گاندھی نے عملی شکل دی اور دلتوں کو بااختیار بنانے کیلئے اقتصادی اور سیاسی فیصلے کئے اور اس طرح اندرا گاندھی نے دلتوں کو معاشی اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے کی خاطر سنجیدہ کوششیں کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دلت اور کمزور طبقات ، اندرا گاندھی کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنے لگے، لیکن بعد کے حالات کانگریس کیلئے سازگار نہیں تھے۔ دلتوں نے کانگریس سے دوری اختیار کرلی اور یہ دوری ایک ایسے وقت اختیار کی گئی جبکہ اقلیتوں نے بھی کانگریس سے تعلق ختم کرلیا تھا جس کے نتیجہ میں کانگریس کی سیاسی اور انتخابی بنیاد دہل کر رہ گئی ۔ راہول گاندھی نے دلتوں کو قریب کرنے کیلئے مختلف دورے کئے ۔ اترپردیش کے مختلف مواضعات میں راہول گاندھی نے ایک روز دلتوں کے مکان میں قیام کیا، ان کے ساتھ کھانا کھایا، چائے پی اور مختلف اُمور پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ سب کچھ انہوں نے مہاتما گاندھی کی تعلیمات سے متاثر ہوکر کیا جنہیں ہندوستان میں ’’دلتوں اور اقلیتوں کا مسیحا‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کو یاد دِلادوں کہ 1931ء میں کانگریس کا کراچی میں سیشن منعقد ہوا تھا، جس میں پنڈت جواہر لال نہرو نے قرارداد پیش کی تھی، جس میں کانگریس کا اصل مقصد مکمل آزادی قرار دیا گیا تھا ، ساتھ ہی اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس مکمل آزادی میں تمام لوگوں کیلئے مساوات ہوگی جودلتوں اور اقلیتوں کیلئے اُمید کے ایک پیغام کا اشارہ تھا۔ اس قرارداد میں بنیادی حقوق شہری آزادیوں اور عوام کے سماجی اور اقتصادی حقوق پر زور دیا گیا تھا۔ کراچی قرارداد کے ساتھ ساتھ ’’نہرو رپورٹ‘‘ نے دستور کی سمت کا تعین کیا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دستور ساز اسمبلی وجود میں لائی گئی۔ مہاتما گاندھی کی ہدایت پر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو آئین کی مسودہ ساز کمیٹی کا صدرنشین مقرر کیا گیا اور اس کمیٹی میں بی این راؤ اور ایم اننتاشیانم ائنگر جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ گاندھی جی کی ہدایت پر امبیڈکر اور شیام پرساد مکرجی کو مرکزی وزیر بنایا گیا تھا۔
بہرحال کے راجو نے اپنی کتاب واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ کانگریس نے دلتوں کیلئے کیا کچھ نہیں کیا ، اقلیتوں کے حقوق کیلئے کانگریس نے بے شمار کارنامے انجام دیئے۔ پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے ساتھ ساتھ قبائیلی بہبود کے ہاسٹلس کانگریس دور حکومت ہی میں قائم کئے گئے ۔ اندرا گاندھی نے مالی مدد اور مکانات کی فراہمی جیسی اسکیمات شروع کیں جس سے دلتوں میں احساس اعتماد پیدا ہوا۔ اگست 1977ء میں بہار کے بیلچی گاؤں میں 11 دلتوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اندرا گاندھی نے فوری اس گاؤں کا دورہ کیا۔ بڑی مشکل سے سفر کرتے ہوئے وہ گاؤں پہنچی تھی۔ پہلے طیارہ سے پٹنہ پہنچی، پھر وہاں سے جیپ میں سفر کیا، ٹریکٹر میں بیٹھی اور آخر میں ہاتھی پر سوار ہوئیں کیونکہ سڑک انتہائی خستہ حالی تھی۔ اس سفر کے ذریعہ اندرا گاندھی نے دلتوں کے دل جیت لئے۔ دلتوں نے نعرے لگائے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ اِندرا تیرے غیاب میں ہریجن زندہ جلائے جاتے تھے ’’آدھی روٹی کھائیں گے ، اِندرا کو لائیں گے ‘‘۔
اسی طرح راجیو گاندھی نے بھی درج فہرست طبقات و قبائل پر مظالم کے انسداد کیلئے ایک قانون لایا اور نیشنل شیڈولڈ کاسٹ فینانس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن قائم کیا تاکہ دلتوں کو معاشی طور پر بااختیار بنایا جائے۔ بہرکیف ! کانگریس نے دلتوں کی ترقی و بہبود کیلئے بہت کچھ کیا ہے اور کے راجو نے اسے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے۔