وہ کیسے آئیں گے تکمیل آرزو کیلئے
ابھی تو خیر سے یہ پہلی رات آئی ہے
دنیا کو جوبائیڈن سے توقعات
امریکی عوام نے چار سال پہلے جو غلطی کی تھی اس کا اعادہ نہ کرتے ہوئے خود کو مشکلات سے کسی قدر دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف ڈالے گئے ووٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ کے مہذب معاشرہ نے اپنے ملک کو دنیا بھر میں مزید مذاق کا موضوع بننے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں ساری دنیا نے امریکہ کو ایک سوپر پاور تسلیم کرنا ترک کردیا تھا۔ امریکی ثقافت کی بدترین تصویر بن کر ڈونالڈ ٹرمپ تاریخ کا تاریک حصہ بن جائیں گے۔ 2016 ء سے دنیا یہ دیکھ رہی تھی کہ امریکہ کا سربراہ کس قدر خود غرض، لالچی اور دروغ گو انسان ہے۔ انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار، سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کی کوششیں اور جھوٹ پہ جھوٹ بولنے کی عادت نے اُنھیں اس قدر رسوا کردیا کہ امریکہ کے ٹی وی چیانلوں نے ان کی وائٹ ہاؤز پریس کانفرنس کے کوریج کو بھی روک دیا۔ سارا امریکہ جوبائیڈن کے حق میں دکھائی دے رہا ہے لیکن ٹرمپ اس حقیقت کو بھی اپنی دروغ گوئی سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ٹی وی چیانلوں اور اخبارات نے صدارتی انتخاب کے نتائج میں دھاندلیوں کے تعلق سے ٹرمپ کے دعوؤں کو تک جگہ نہیں دی۔ ڈیموکریٹک امیدوار اور سابق نائب صدر امریکہ جوبائیڈن کی کامیابی سے ثابت ہورہا ہے کہ امریکی عوام نے ان کی شخصیت، سنجیدہ مزاجی اور مدبرانہ انداز فکر سے متاثر ہوکر انھیں کامیابی کی دہلیز تک پہنچادیا ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب کے قطعی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد بائیڈن ہی وائٹ ہاؤز کے نئے مکین ہوں گے۔ امریکہ کے عوام نے چار سال سے معاشی ابتری، غیر یقینی سے دوچار امریکی مستقبل کو مزید خطرے میں ڈالنے سے بچایا ہے۔ امریکی عوام کو انا پرست صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے شدید مسائل کا شکار ہونا پڑا ہے خاص کر کورونا وائرس کی خطرناک وباء سے نمٹنے میں ٹرمپ نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں کئی متنازعہ فیصلے کئے۔ ایمگریشن قوانین، چند مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی، میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کئی ملین ڈالر کے مصارف اور اس طرح کے کئی فضول ایگزیکٹیو آرڈرس نکال کر اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی اس چار سالہ سیاسی زندگی نے امریکہ کو ایک گہن لگادیا تھا۔ بظاہر وہ اپنی حکمرانی پر فخر کرتے تھے اور ان کے دوست بن کر جن جن قائدین نے خود کو خوش نصیب سمجھا تھا ان میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ اب ٹرمپ کی شکست کے سب سے زیادہ تکلیف ایسے ہی لوگوں کو ہوگی جو انسانی قدروں کو پامال کرنے کی عادت رکھتے تھے۔ امریکی عوام نے ٹرمپ کو وائٹ ہاؤز سے نکالنے کا فیصلہ کرکے اپنے ملک کی لاج رکھ لی ہے۔ اب عوام کے منتخب پسندیدہ ڈیموکریٹک صدر جوبائیڈن کو اپنے فرائض کی انجام دہی اور بہتر حکمرانی کے وعدوں کو پورا کرکے دکھانے کا وقت آیا ہے جو بائیڈن کی کامیابی میں امریکہ کے ان 70% مسلم رائے دہندوں کا بھی اہم رول ہے جنھوں نے جوبائیڈن کو ووٹ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عالم اسلام اور مسلمانوں کے لئے جوبائیڈن ایک اچھے صدر ثابت ہوں تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ یہ اُمید کی جارہی ہے کہ بائیڈن وہ غلطیاں نہیں کریں گے جوکہ ٹرمپ نے کی تھی۔ ویسے امریکہ کی پالیسیوں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤز پر کسی بھی پارٹی کا صدر فائز رہے، امریکہ کی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی لیکن اس بار ٹرمپ نے کئی بنیادی تبدیلیاں لائی تھیں۔ توقع ہے کہ اب ان کا اعادہ نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کو جن لوگوں نے ووٹ دیا ہے ان کی تعداد بھی قابل لحاظ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے اپنی چار سالہ حکمرانی کے دور میں امریکی عوام کی بڑی تعداد کو بھی اپنے مزاج میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی۔ امریکی عوام کا رجحان بدلنے اور ان کے نظریات میں تبدیلی لانے ٹرمپ کی لاکھ کوششوں کے باوجود عوام کی اکثریت نے بائیڈن کو پسندیدہ صدر بنادینے کا فیصلہ کیا۔ اب انھیں وائٹ ہاؤز میں داخل ہونے کے لئے بس نتائج کا رسمی اعلان باقی ہے۔ ساری دنیا اور عالم اسلام کو جوبائیڈن سے کافی توقعات ہیں۔ بہرحال امریکی جمہوریت دنیا میں کئی جمہوری ممالک کے لئے ایک رول ماڈل ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی جمہوریت والے ملک میں صدارتی انتخاب کے نتائج کے آنے میں تاخیر سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے چار سال کے اندر امریکہ کو دو حصوں میں منقسم کردیا اور نظریاتی خطوط پر امریکی رائے دہندہ بھی منتشر نظر آرہا ہے۔
کورونا کی دوسری لہر ، دوبارہ لاک ڈاؤن کا خوف
دنیا کے بعض ملکوں میں کورونا کی دوسری لہر اور دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد ہندوستان میں بھی کورونا کی واپسی، کاروبار بند کرنے، شادیوں کی تقاریب پر پابندیوں اور دیگر احتیاطی اقدامات کے نام پر حکومتوں کے لاک ڈاؤن کے امکانی اعلان نے شہریوں کو پریشان کردیا ہے۔ شہر حیدرآباد میں بھی دوبارہ لاک ڈاؤن کی خبروں سے عوام بے چین ہورہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے کہ دوبارہ لاک ڈاؤن کے لئے حکومت کا کیا موقف ہے۔ تلنگانہ اور ملک کی دیگر ریاستوں میں کورونا کی صورتحال میں بہتری آنے سے عام زندگی معمول پر آچکی ہے لیکن شہریوں کو مختلف افواہوں نے تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ موسم سرما کے دوران نومبر، ڈسمبر اور جنوری میں کورونا وباء کے اثرات بڑھنے کی اطلاعات اور محکمہ صحت کی جانب سے عوام کو احتیاط برتنے کے مشورہ نے بھی ایک خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ تاہم عوام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سماجی دوری برقرار رکھنے اور ہاتھوں کو صاف ستھرا رکھتے ہوئے تمام ضروری احتیاطی اقدامات پر دھیان دیں۔ درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ ہی کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ اس کو یقینی نہیں سمجھنا چاہئے۔ محکمہ صحت کی اڈوائزری کی روشنی میں شہریوں کو بعض معاملوں میں ازخود احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آندھراپردیش میں اسکولوں کی کشادگی کے لئے حکومت کا فیصلہ طلباء اور اساتذہ کے لئے خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ تاہم حکومت تلنگانہ نے اسکولوں کی دوبارہ کشادگی سے گریز کیا ہے اور آن لائن کلاسیس جاری رکھنے کا فیصلہ درست ثابت ہورہا ہے۔
