دنیا کو عالمی حدت سے سنگین خطرہ

   

پروین کمال
آج کا یہ موضوع صرف الفاظ سے مزین ایک تحریر ہی نہیں بلکہ اس ترقی یافتہ دور کی ایک تلخ حقیقت سے آگاہی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اس وقت ساری دنیا ایک خطرناک مسئلہ سے نبردآزما ہے جو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا پر وارد ہوا ہے اور بے انتہا کوشش اور محنت کے باوجود بھی اس سلسلے میں انسان کوئی بہتر راستہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت یہ خوبصورت سیارہ (کرۂ ارض) جو ذی حیات کی قیام گاہ ہے۔ Global Warming سے نیم جاں ہوا جارہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ مہینے ایک بڑی کانفرنس گلاسگو (اسکاٹ لینڈ) میں منعقد کی گئی تھی، لیکن اس کے کوئی حوصلہ بخش نتائج سامنے نہیں آئے اور اس سے کوئی مثبت امیدیں قائم نہیں کی جاسکتیں، کیونکہ پانچ سال قبل بھی پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس ہوئی تھی جس میں طئے کیا گیا تھا کہ درجہ حرارت میں 2 ڈگری تک کمی لائی جائے گی مگر ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور حسب سابق کاربن ڈائی آکسائیڈ فضاء میں گشت کررہی ہے۔ اس حالیہ کانفرنس میں جرمنی کی چانسلر انجیلا میرکل نے ایک تجویز پیش کی کہ کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والوں سے اس کی اضافہ قیمت وصول کی جائے تاکہ گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کیلئے کوئی کار آمد طریقے پر عمل کرنے میں مدد مل سکے کیونکہ سال 2050ء تک فضائی آلودگی اور اس کے پھیلاؤ میں کم سے کم 50% کمی لانے کا باقاعدہ معاہدہ تمام ممالک کے درمیان طئے پاچکا ہے۔ اگر اس معاہدے کے مطابق کام ہوتا ہے تو دنیا ایک پاک و صاف ماحول میں سانس لے سکے گی لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیشقدمی نہیں ہوئی۔ وجہ ظاہر ہے۔ اس منصوبے کو تشکیل دینے کیلئے کثیر سرمایہ کی ضرورت ہے۔ اس کے بڑھنے کی وجہ ہے “Green House Gases” جو قدرتی طور پر فضاء میں موجود ہیں اور کرۂ ارض پر جانداروں کی بقاء کیلئے نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ اس میں دو بہت ہی اہم ہیں۔ اول تو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسرے آبی بخارات اگر یہ فضاء میں بڑھ جائیں تو حرارت کی شدت میں بھی براہ راست اضافہ ہونے لگتا ہے۔ یہاں یہ بات خصوصی طور پر غور کی جاسکتی ہے کہ قدرت کی طرف سے کرہ ارض پر حیات کی بقاء کیلئے کتنا کچھ مضبوط اور متوازن نظام ترتیب دیا گیا ہے مگر انسان کی طرف سے اس کی حفاظت میں ہمیشہ کوتاہیاں ہوتی رہیں جس کا نتیجہ اب شدت سے سامنے آرہا ہے۔ دراصل جب دنیا میں صنعتی انقلاب شروع ہوا تو پھر اس دور میں کوئی بھی پیچھے رہنے کیلئے تیار نہیں تھا اور یوں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے گرین ہاؤز گیسیس کا اخراج بے دریغ ہونے لگا اور زمینی تپش میں شدت سے اضافہ ہونے لگا۔ ماہرین کے خیال میں گزشتہ ادوار میں اتنی تپش نہیں ہوا کرتی تھی۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ 1930ء تک درجہ حرارت میں مستقل مزاجی تھی۔ موسم بالکل متوازن ہوا کرتے تھے۔ قدرتی نظام کے تحت موسم کی تبدیلی ہوتی تھی جس کا اثر انسانوں اور نباتات پر مثبت ہوتا تھا۔ نباتات کیلئے صحت بخش ہوائیں اور وقت پر بارشیں ہوا کرتی تھیں۔ موسم اعتدال پر تھے۔اس وقت گلوبل وارمنگ کی بات کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ لیکن پھر کچھ یوں ہوا کہ سن 1980ء کی شروعات نے ایک تہلکہ مچا دیا۔ جیسے کوئی طوفان آگیا ہو۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہونے لگا۔ اس حوالے سے بہت ساری رپورٹس اور تجزیے سامنے آئے جو حقیقی معنوں میں ایک وارننگ تھی کہ ہمیں اب جاگنا چاہئے اور اس تپش سے نجات پانے کیلئے فوری کوئی قدم اٹھانا چاہئے تب 1992ء میں تمام ممالک نے مل کر برازیل میں پہلی بار ایک بہت بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا عین مقصد تھا۔ کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا سبب جاننا اور ہر پہلو کا جائزہ لیتے ہوئے انسدادی کارروائیاں شروع کرنا چنانچہ بہت ساری اجلاس ہوئے۔ جنوبی قطبی خطے میں بڑے بڑے گلیشرز ٹوٹنے اور پگھلنے لگے ہیں جس سے سمندر کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے۔ کئی ایک ملکوں میں سیلاب، سمندری طوفان، تیز ہوائیں، گرمی کی شدید لہر سے جنگلوں میں لگنے والی آگ سے نقصانات، یہ سب کچھ فضائی آلودگی اور زمینی تپش کے باعث ہورہا ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق کرۂ ارض کو گرم کرنے والے عوامل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زیادہ حصہ ہے جو Fossil Fuel کے جلنے سے پیدا ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ کاروں، ٹرکوں، ہوائی جہازوں سے خارج ہونے والے دھویں سے اور ایک بڑی مقدار کاربن کی ایرکنڈیشن بھی خارج کرتے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے دور کا انسان صدیوں کی محنت اور جستجو کے بعد جو جدید آسائشیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ وہ ان سے دستبردار ہونے پر راضی ہوسکتا ہے۔ یقینا جواب ہوگا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کی کوششیں اپنا اثر نہیں رکھا سکیں، کیونکہ گرین ہاؤز گیسیس پر قابو پانا اس مشینی دور میں ممکن نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے قدم ترقی کے راستے پر ہمیشہ ہی آگے بڑھے ہیں۔ ایشیا کے کچھ ملک اور جنوبی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک کی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ جنوبی امریکہ میں جب کہ وہاں آبادی کم تھی۔ دریائے ایمیزون کے عظیم جنگلات کو زمین کے پھیپھڑوں سے تشبیہ دی جاتی تھی جو دنیا میں آکسیجن پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں تیزی سے آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ تب انسانوں کو رہنے کیلئے جگہ مہیا کرنے کیلئے جنگلات کی کٹوائی کروا دی گئی اور اب وہ آکسیجن فراہم کرنے والا خطہ خود آکسیجن کی کمی کے باعث مشکلات سے گزر رہا ہے۔ بہرکیف یہ کرۂ ارض جس پر نسل آدم نے آنکھیں کھولیں، اس کو اور خود اپنے آپ کو بھی تباہی سے بچانے کیلئے ہمیں اپنا اپنا فرض ادا کرنا چاہئے، ورنہ یہ حسین اور خوبصورت کرہ جو قدرت کی طرف سے ہمارے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔ برباد ہوجائے گا۔