دواخانوںکی لوٹ مار ‘ حکومت کا تعلق

   

تلنگانہ کے خانگی کارپوریٹ دواخانوں نے ایسا لگتا ہے کہ مریضوںکو اور ان کے رشتہ داروں کو لوٹنے کیلئے ریاستی حکومت کے ساتھ ساز باز کر رکھی ہے یا حکومت نے انہیں کمیشن کی بنیاد پر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت دے رکھی ہو۔ سرکاری دواخانوں کی انتہائی ابتر صورتحال اور وہاں بستر دستیاب نہ ہونے کے بہانوں کی وجہ سے جب مریض کو اس کے رشتہ دار خانگی اور کارپوریٹ دواخانوں سے رجوع کر رہے ہیں تو وہاں ان کی مالی حالت کا اندازہ کرنے کے بعد ہی بستر دئے جا رہے ہیں اور پھر شروع ہو رہا ہے وقفہ وقفہ سے ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ ۔ ہر روز ہزاروں بلکہ لاکھوں روپئے مریضوں کے علاج کے نام پر لوٹے جا رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے خانگی دواخانوں کو کورونا وائرس کے علاج کی اجازت دیتے ہوئے گویا ان کیلئے بے مول لاٹری کا انتظام کردیا ہے اور ان کے ہاتھ میں اے ٹی ایم کارڈ دیدیا ہے جسے وہ استعمال کرتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے جار ہے ہیں۔ حکومت نے حالانکہ خانگی دواخانوں کو علاج کی اجازت دیتے ہوئے کچھ شرحیں اور فیس مقرر کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن ساری ریاست میں شائد ہی کوئی ایک دواخانہ بھی ایسا ہو جہاں حکومت کی مقرر کردہ شرحوں پر علاج کیا جار ہا ہو یا پھر حکومت کی جانب سے جاری کردہ رہنما خطوط کا خیال رکھا جا رہا ہو۔ کسی ایک بھی دواخانہ میں حکومت کی مقرر کردہ شرحوں کا بورڈ بھی آویزاں نہیں کیا گیا ہے حالانکہ حکومت نے ایسا کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ اس کے باوجود ریاستی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ وہ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے خانگی دواخانوں کو لوٹ مار کرنے کا پورا موقع فراہم کر رہی ہے اور ان کے تعلق سے درج کی جانے والی شکایات کو یکسر نظر انداز کررہی ہے جس سے عوام میں یہ اندیشے ہیں کہ کہیں حکومت بھی دواخانوں کے ساتھ ساز باز تو نہیں کرچکی ہے ؟ ۔ کوئی دن ایسا نہیں گذر رہا ہے جب عوام خانگی دواخانوں میں ہونے والی لوٹ مار کی شکایات سوشیل میڈیا پر پیش نہیںکر رہے ہوں لیکن حکومت یا اس کے نمائندے یا اسکے حواری چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں۔

سوشیل میڈیا پر جوصورتحال سامنے آ رہی ہے اس نے ایک طرح سے کارپوریٹ خانگی دواخانوں کو ہاسپٹل مافیا بنادیا ہے ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ سرکاری طور پر بارہا کہا جارہا ہے اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کی کوئی دوا ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی ہے ۔ کوئی ویکسین ابھی دنیا میںنہیں آیا ہے ۔ ایسے میں خانگی دواخانے صرف اینٹی بائیوٹک دوائیں دیتے ہوئے کس طرح سے لاکھوں روپئے اینٹھ سکتے ہیں ؟۔ صرف دواخانے میں علیحدہ کمرے یا آکسیجن فراہم کرتے ہوئے یا چنندہ افراد کو وینٹیلیٹر فراہم کرتے ہوئے لاکھوں روپئے وصول کرنے کا جواز کیا ہوسکتا ہے ؟ ۔ تلنگانہ حکومت خودا پنی جانب سے جاری کردہ احکام پر ہاسپٹل مافیا سے عمل کروانے میں ناکام ہوگئی ہے تو وہ کورونا پر قابو پانے میں کس طرح کامیاب ہوگی ۔ بارہا حکومت کے علم میںیہ بات لائی جار ہی ہے کہ دواخانوں میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے ۔ مریضوں کے رشتہ داروں کو رقومات جمع کرنے کیلئے ہراساں کیا جار ہا ہے اور بعض معاملات میں تو علاج روک دینے کی دھمکیاں دی جار ہی ہیں تاکہ یہ لوگ کسی بھی قیمت پر دواخانہ میں رقومات جمع کروائیں۔یہ ساری صورتحال ہیلت ایمرجنسی سے بھی زیادہ ابتر کہی جاسکتی ہے ۔ سارے حالات کا علم رکھنے کے باوجودٹی آر ایس حکومت دواخانوں پر کنٹرول کرنے یا ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کرنے کی جراء ت نہیں کر پا رہی ہے ۔

ریاستی حکومت کا تو یہ حال ہے کہ عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ عوام سے ہی کہا جا رہا ہے کہ وہی ماسک استعمال کریں ‘ وہی سینیٹائزر استعمال کریں۔ بازار کھلے تو رہیں گے عوام ہی سماجی دوریوں کا خیال رکھیں۔ دواخانوں کی لوٹ مار بھی وہی سہیں۔ سرکاری دواخانوں میں ہونے والی لا پرواہیوں کا شکار بھی عوام ہی بنیں ۔ حکومت اپنی جانب سے صرف احکام جاری کرنے تک محدود ہوگئی ہے اور وہ بھی ایسے احکام جن کو کوئی خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ ریاستی حکومت کو کم از کم اب حرکت میں آجانا چاہئے ۔ دواخانوںمیں بہتر سہولیات فراہم کرنے کیلئے پہل کرنی چاہئے ۔ خانگی دواخانوں میں جو لوٹ مار ہو رہی ہے اس کو روکنے کیلئے سخت گیر اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ جو دواخانے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھیں ان کو مہربند کرنے سے بھی حکومت کو گریز نہیں کرنا چاہئے ۔