دودھ پیتے بچوں کی غذائی ضروریات

   

نوزائیدہ بچے کو جو غذا پیدائش کے فوراً بعد دی جاتی ہے اسے تحنیک یا گھٹی دینا کہتے ہیں۔ اکثر معاشروں میں گھٹی کو انسانی زندگی کی اہم ترین غذا خیال کیا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ ’’ گھٹی ‘‘ کا اثر ساری زندگی محسوس ہوتا ہے ۔ نہ صرف دی جانے والی غذا بڑی احتیاط سے منتخب کی جاتی ہے بلکہ ’’ گھٹی ‘‘ دینے والے شخص کا انتخاب بھی بڑی چھان بین سے ہوتا ہے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ گھٹی دینے والے شخص کے کردار و اخلاق کا عکس بچے کی شخصیت میں جھلکتا ہے ۔ صحابہ کرام اپنے نومولود بچوں کو تحنیک کیلئے نبی ﷺ کی خدمت میں لایا کرتے ۔ آپؐ ننھے منے مہمانوں کو اس دنیا میں آنے پر خوش آمدید کہتے ، ان کیلئے خیر و برکت کی دعا کرتے اور کھجور کا تھوڑا سا حصہ نرم کر کے بچے کے تالو سے لگاتے اور چٹاتے ۔ کسی بزرگ کے اعزاز و اکرام یا بچے کیلئے خیر و برکت حاصل کرنے کیلئے ’’ تحنیک ‘‘ میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ ایک علامتی رسم ہی ہو جس میں پیدائش کے بعد ایک مرتبہ انگلی سے شہد چٹا دیا جائے ، نرم سی کھجور یا کوئی اور چیز دی جائے یا آب زم زم یا کسی اور مشروب کے چند قطرے ٹپکا دیئے جائیں ۔ ’’ گھٹی ‘‘ کے ساتھ تقدس کا جو پہلو ہے اس کے تحت منتخب کی جانے والی غذاؤں میں شہد اور آب زم زم نمایاں ہیں ۔ دوسری غذاؤں میں چینی ، میٹھا یا نمکین پانی اور کئی قسم کے عرق شامل ہیں ۔ بازار میں اس مقصد کیلئے ’’ جنم گھٹی ‘‘ کے نام سے کئی قسم کے مرکبات موجود ہیں ، یہ مرکبات سونف ، اجوائن او کچھ دوسری اشیاء سے تیار کئے جاتے ہیں ۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ’’ جنم گھٹی ‘‘ ’’ گرائپ واٹر ‘‘ اور عرق وغیرہ دینے سے بچے کا پیٹ ٹھیک رہتا ہے ۔ اکثر مائیں زندگی کے ابتدائی چند ماہ تک بچے کو یہ چیزیں باقاعدگی سے دیتی ہیں ۔ یہ خیال بھی خاصا عام ہے کہ پیدائش کے بعد ابتدائی دوچار روز تک ماں کا دودھ نہیں اترتا اس لئے اس دوران کوئی دوسرا دودھ یا مشروب بچے کو خوراک کے طور پر دیا جانا چاہئے ۔ بعض مائیں تو شروع میں آنے والے دودھ کو ضائع کردیتی ہیں کیونکہ وہ اسے بچے کیلئے مضر خیال کرتی ہیں ۔ چنانچہ اس کے بجائے بچے کو دوسری چیزیں خوراک کے طور پر دیتی رہتی ہیں ۔ یہ خیالات صحیح نہیںہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں کا دودھ تو بچے کی پیدائش سے پہلے ہی تیار ہوتا ہے ۔ ایک صحت مند بچہ پیدائش کے فوراً بعد دودھ چوسنے اور نگلنے کے عمل کی پوری اہلیت رکھتا ہے ۔ ابتدائی دنوں کا دودھ غذائی اعتبار سے بچے کیلئے نہایت اہم ہے اس کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت مدافعت کئی امراض کے مقابلہ کی اہلیت رکھتی ہے ۔ اس دودھ میں ایسی تاثیر ہے جو کسی ’’ جنم گھٹی ‘‘ یا ’’ عرق ‘‘ میں نہیں ۔ اس کی موجودگی میں کسی دوسری چیز کی ضرورت ہی نہیں ۔ ’’ تحنیک ‘‘ کے طور پر بچے کو انگلی سے کوئی چیز چٹانے کے فوراً بعد ماں کا دودھ شروع کردیا جانا چاہئے ۔ پیدائش کے بعد آدھے گھنٹہ کے اندر اندر ماں کا دودھ شروع کروانے کے بے شمار فوائد ماں اور بچے کو حاصل ہوتے ہیں ۔ بچے کی ضرورت کے مطابق دودھ بچے کو حاصل ہوتا رہے گا ۔ ’’ گھٹی ‘‘ کے طور پر دی جانے والی اکثر اشیاء بچے کیلئے غیرضروری اور نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں ۔ اس طرز عمل سے ہونے والے نقصانات درج ذیل ہیں ۔٭ ناصاف پانی ، کھانے کی چیزیںیا گندے ہاتھوں اور برتنوں کے باعث بچے کے نازک سے جسم میں جراثیم داخل ہونے سے بچہ اسہال یا دیگر بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے ۔ ٭ عرق اور جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ اکثر گھٹیاں دست آور ہوتی ہیں ان کے دینے کا بڑا مقصد بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ ان کے ذریعہ آنتوں میں موجود فاسد مادے ، جلد خارج ہوجاتے ہیں۔ Meconium زندگی کے ابتدائی دنوں میں آنتوں میں ایک حفاظتی حصار مہیا کرتا ہے ۔ گھٹی یا عرق کے ذریعہ آنتوں کی حرکات تیز کر کے meconium کو تیزی سے باہر نکالنے سے اس حفاظتی کردار میں خلل پڑتا ہے جس سے نہ صرف آنتوں کی اندرونی سطح متاثر ہوتی ہے بلکہ جراثیم کو دخل اندازی کا بھی موقع زیادہ ملتا ہے۔ پیدائش کے بعد ابتدائی دنوں کا دودھ meconium کو مناسب وقت میں آنتوں سے خارج کر کے انہیں غذا کے جذب کرنے کیلئے تیار کردیتا ہے ۔٭ بچے کو میٹھا یا نمکین پانی دینے سے اس کا معدہ بھر جاتا ہے ۔ معدہ بھرا ہو تو بھوک کی شدت کم ہوجاتی ہے جس سے بچہ ماں کا دودھ قوت سے نہیں چوستا اس سے ماں کا دودھ کے اترنے کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے ، بچہ ماں کا دودھ جتنی قوت سے چوستا ہے دودھ کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ ٭ ابتدائی دنوں میں دوسرا دودھ شروع کروانے سے کئی قسم کی الرجی پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ٭ مشروبات اور دوسرا دودھ بوتل کے ذریعہ دینے سے بچے کو ماں کا دودھ لینے میں پریشانی محسوس ہوتی ہے ۔
(باقی سلسلہ آئندہ )