دودھ پیتے بچوں کی غذائی ضروریات

   

اس کا ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ مقعد کے اردگرد جلد کی خارش وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے ۔ ماں کے دودھ میں موجود disaccharide factor کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف خود منہ سے زیادہ نہیں چپکتا بلکہ جراثیم کی افزائش کا ماحول بھی نہیں بننے دیتا ۔ اس لئے بچے دانتوں ، گلے ، ناک ، کان کی بہت سے بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ چنانچہ دانتوں کا caries ایسے بچوں میں کم ہوتا ہے اور ان کے دانت ٹیڑھے نہیں ہوتے ۔ ماں کا دودھ پینے دوران چوسنے اور نگلنے کا عمل اس قدر یکسانیت سے چلتا ہے کہ بچے میں سانس رکنے یا اچھو لگ جانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے ۔ ماں کے دودھ میں ایک اہم چیز بچوں کی نشو و نما کو کنٹرول کرنے والے اجزاء ہیں ۔ یہ اجزا انسان کے بچے کی جسمانی اور ذہنی نشو و نما کو بڑے مناسب انداز سے کنٹرول کرتے اور صلاحیتوں کو اُبھارتے ہیں ۔ انسانی دودھ کی خصوصیت اس کے اجزاء میں محض چند گرام کا فرق نہیں بلکہ اس کے وہ اثرات ہیں جو تیزی سے نشو و نما پانے والے ’’ خلیفۃ اللہ فی الارض ‘‘ پر پڑرہے ہیں ۔ چنانچہ پیدائش کے بعد ابتدائی چند دنوں میں فراہم ہونے والا دودھ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ عام دنوں میں فراہم ہونے والے دودھ کی نسبت اس میں مدافعتی سفید خلیات کثیر تعداد میں ( تقریباً سو گنا زیادہ ) موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ بے شمار دوسرے مدافعاتی خلیات موجود ہوتے ہیں تاکہ اس نازک دور میں جب بچہ نئے ماحول میں ابھی نووارد ہے اس کی قوت مدافعت اس حد تک بڑھادی جائے کہ وہ ہر طرح کے مسائل کا مقابلہ کرسکے ۔ پھر اس دودھ میں پروٹین کی مقدار معمول سے دس گنا زیادہ ہوتی ہے تاکہ ابتدائی دنوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی جسمانی ضروریات پوری کی جاسکیں اس لحاظ سے دیکھا جائے ت پہلے دو تین روز میں دنیا کی کوئی ’’ جنم گھٹی ‘‘ اور کوئی دوسری غذا اس دودھ کا نعم البدل نہیں ہوسکتی ۔ معمول کے دودھ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پروٹین کی مقدار اتنی مناسب ہے اور پھر اس پروٹین کے اجزاء اتنے متناسب ہیں کہ ننھے سے جسم کیلئے اس دودھ کا ہضم کرنا اور جزوبدن بنانا نہایت آسان ہوتا ہے ۔ دودھ میں دو طرح کی اہم پروٹین ہوتی ہے ۔ پانی میں حل پذیر اور پانی میں ناحل پذیر ، پانی میں حل پذیر پروٹین دو طرح کی ہیں ۔ ایلیومن اور گلابولن جبکہ پانی میں ناحل پذیر پروٹین کیسینوجن ہے انسانی دودھ میں پانی میں حل پذیر پروٹین کی مقدار 60 فیصد ہے جبکہ گائے کے دودھ میں صرف 18 فیصد ، اسی لئے ہاضمہ کے وقت معدہ میں انسانی دودھ بڑا نرم رہتا ہے جس کے باعث اس کا زیادہ سے زیادہ حصہ جزو بدن بن سکتا ہے جبکہ جانوروں کا دودھ انسانی بچے کے معدہ میں جاتے ہی سخت ہوجاتا ہے ۔ ٹھیک سے ہضم نہیں ہوتا اور اس کا بہت تھوڑا حصہ جزوبدن بن پاتا ہے ۔ انسانی بچے کو نشو و نما کیلئے جو ضروری amino acids درکار ہیں وہ سب ٹھیک مقدار میں اس دودھ میں موجود ہیں ۔ جانوروں کے دودھ میں ناقابل ہضم پروٹین کی وجہ سے نہ صرف بچہ ضروری اجزاء سے محروم رہ جاتا ہے بلکہ اس کو کئی قسم کی الرجی ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ لکٹورنہ صرف اچھی طرح ہضم ہو کر زیادہ سے زیادہ جزو بدن بننے کی اہلیت رکھتا ہے بلکہ بچے کو دستوں سے بچانے اور اس کی ذہنی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ چکنائی میں بھی زیادہ حصہ غیر سیر شدہ کا ہے جو بڑی آسانی سے ہضم ہو کر زیادہ سے زیادہ جزو بدن بننے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔زیادہ چکنائی ہضم ہونے کے باعث چکنائی میں حل ہونے والے وٹامن اے اور ڈی بڑی اچھی طرح اور زیادہ م قدار میں جزو بدن بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ان دونوں وٹامنز کی کمی بہت کم دیکھنے کو ملے گی ۔ وٹامن اے آنکھوں کی اور وٹامن ڈی ہڈیوں کی نشو و نما کیلئے نہایت اہم ہیں ۔ نمکیات کی مقدار ماں کے دودھ میں بہت کم ہے جس کے باعث نازک گردے غیرضروری دباؤ سے محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ تحفظ ساری زندگی اپنا اثر دکھاتا ہے ۔ چنانچہ خون کے دباؤ میں میں اضافہ دل کو خون فراہم کرنے والی خون کی نالیوں کا سکڑنا وغیرہ امراض کیلئے یہ دودھ بہت حد تک بچاؤ فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرے دودھ پر پلنے والے بچوں میں بعد کی عمر میں بلڈپریشر کی زیادتی اور دل کی بیماریوں کے خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
( باقی سلسلہ آئندہ )