دودھ پیتے بچوں کی غذائی ضروریات

   

(تیسری قسط )

زیادہ چکنائی ہضم ہونے کے باعث چکنائی میں حل ہونے والے وٹامن اے اور ڈی بڑی اچھی طرح اور زیادہ م قدار میں جزو بدن بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ان دونوں وٹامنز کی کمی بہت کم دیکھنے کو ملے گی ۔ وٹامن اے آنکھوں کی اور وٹامن ڈی ہڈیوں کی نشو و نما کیلئے نہایت اہم ہیں ۔ نمکیات کی مقدار ماں کے دودھ میں بہت کم ہے جس کے باعث نازک گردے غیرضروری دباؤ سے محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ تحفظ ساری زندگی اپنا اثر دکھاتا ہے ۔ چنانچہ خون کے دباؤ میں اضافہ دل کو خون فراہم کرنے والی خون کی نالیوں کا سکڑنا وغیرہ امراض کیلئے یہ دودھ بہت حد تک بچاؤ فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرے دودھ پر پلنے والے بچوں میں بعد کی عمر میں بلڈپریشر کی زیادتی اور دل کی بیماریوں کے خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’ خلیفۃ اللہ فی الارض ‘‘ کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کیلئے اس کی ماں کا دودھ محض خوراک تنہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ فوائد کا حامل ہے ۔ ذہنی آسودگی بچے کو ماں کا دودھ پینے سے جو ذہنی آسودگی ، راحت اور احساس تحفظ حاصل ہوتا ہے کا پورا انداز لگانا مشکل ہے ۔ یہ احساس تحفظ زندگی کی پراعتماد بنیاد استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ ماں کے دودھ سے محروم رہنے والے بچوں کا احساس محرومی تاحیات اپنا اثر دکھاتا ہے ۔ ماں کی آغوش میں بچے کی کلکاریاں صرف بچے ہی کو آسودگی نہیں بخشتیں ماں کے ہارمونز کو بھی منضبط کر کے اس کی صحت پر بڑا خوشگوار اثر ڈالتی ہیں ۔ بچے کو اپنی آغوش میں لینے سے ماں کی ممتا کی تسکین ہوتی ہے۔ ماں اور بچے کی خوشی سے گھر بھر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے ۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں وہ خود ذہنی طور پر متوازن نہیں رہتیں ۔ ان کا اپنے بچوں سے تعلق بھی زیادہ نہیں ہوپاتا ۔ مغربی ممالک آج کل ’’ بچوں پر تشدد ‘‘ کے سنگین مسئلہ سے دوچار ہیں ۔ اس مسئلہ نے ایک وبا کی صورت میں اس معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کم از کم نو ماہ تک ماں کا دودھ پینے والے بچے ذہانت کے اعتبار سے ان بچوں سے بہتر ہوتے ہیں جنہوں نے ماں کا دودھ نہیں پیایا صرف ایک دو ماہ کیلئے پیا۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماں کا دودھ بچے کیلئے بہترین غذا ہے ۔ بچے کو پیدائش کے بعد جتنی جلد یہ دودھ دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں ۔ ابتدائی چند دنوں میں فیڈر کا استعمال دراصل ماں اور بچے دونوں کی مشکلات کا آغاز ہے ۔ دودھ پلانے کا نظام الاوقات ، بچے کے مقررہ نظام الاوقات کے بجائے عندالطلب دودھ دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے اس سے بچہ مطمئن رہتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچہ جب بھی روپئے اسے دودھ پلانا شروع کردیا جائے ۔ ایک سمجھدار ماں جلد ہی یہ جان لیتی ہے کہ بچہ کیوں روتا ہے ؟ ممکن ہے وہ کپڑوں کے گیلا ہونے گرمی یا سردی لگنے یا محض کسی خوف سے رو رہا ہو ۔ ماں کو اندازہ ہونا چاہئے کہ کس وقت بچے کی ضروریات کیا ہیں ۔ وہ جب بھی محسوس کرے کہ بچہ بھوکا ہے اسے دودھ پلائے ۔ ممکن ہے بچہ ہر دو گھنٹہ بعد بھوک محسوس کرے ی ا اس سے کم یا زیادہ دیر میں کیونکہ اس کا معدہ اس کی طلب کو خود کنٹرول کرتا ہے ۔ ماں رات سوتے میں بھی لیٹے لیٹے دودھ پلاسکتی ہے اس سے بچے کے دودھ نگلنے کے عمل پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ دن رات میں آٹھ سے دس مرتبہ دودھ ضرور پلانا چاہئے ۔ دوسری غذا شروع ہونے پر یہ تعداد کم ہوسکتی ہے ۔ جب بھی دودھ پلایا جائے دونوں جانب سے پندرہ بیس منٹ تک پلاتے رہنا چاہئے ۔ ابتدائی پانچ چھ ماہ تک بچے کو صرف اپنا دودھ پلانے سے خود ماں کو بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ ایسی ماؤں میں چھاتی کے کینسر اور دوسرے امراض کے امکانات کم ہوجاتے ہیں ۔ بچوں میں مناسب وقفہ ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں جلد حمل کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔بچے کی صحت ، دودھ چوسنے کی صلاحیت ، بھوک اور یہ کہ ایک دن میں کتنی مرتبہ وہ دودھ پیتا ہے سب دودھ اترنے پر اثر انداز ہوتے ہیں بچہ جس قدر قوت سے دودھ چوسے گا اور اس جس قدر زیادہ مرتبہ دودھ پیئے گا اسی قدر زیادہ دودھ اترے گا ۔ کمزور بچہ زیادہ قوت سے دودھ نہیں کھینچ سکتا ۔ اس صورت میں دودھ کی مقدار کم ہوگی چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ کم وزن کے کمزور بچہ کی ماں کم مقدار میں دودھ پیدا کرتی ہے زیادہ وزن کے بچہ کی ماں کا دودھ ہوتا ہے ۔ جڑواں بچوں کی پیدائش کی صورت میں ماں اگر دونوں بچوں کو دودھ پلانے کا ارادہ کرے تو ان کی ضرورت کے مطابق دودھ فراہم ہوتا رہے گا ۔ بچے کو دوسرا دودھ لگانے یا دوسری غذائیں دینے سے ماں کے دودھ کی مقدار کم ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔