دور کے ڈھول سہانے

   

وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کہا کہ ہندوستان کو 2047 تک ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے کام کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح وزیر اعظم نے عملا آئندہ 23 سال تک ملک کے عوام کو انتظار کرنے کیلئے کہا ہے ۔ ویسے تو حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی اور مستقبل کے منصوبوں کو عوام کے سامنے پیش کرتے رہیں اور ان کو وقفہ وقفہ سے اب تک کئے گئے کاموں کی تفصیلات سے واقف کروایا جائے ۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا سوال ہے تو اس کو سب سے پہلے اپنی جاریہ تیسری معیاد تک کئے گئے کاموں کو سب سے پہلے عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔ ملک کے عوام سے 2014 سے اب تک جووعدے کئے گئے تھے ان پر کتنے وعدے پورے ہوئے ہیں ان کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کئی وعدے ایسے ہیں جو اب تک محض زبانی جمع خرچ اور جملے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ موجودہ مودی حکومت نے ہی ملک کے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی آمدنی کو 2023 تک دوگنی کردیا جائیگا ۔ تاہم ایسا نہیں ہوا بلکہ ملک میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں کسانوں کو اقل ترین امدادی قیمت تک ادا نہیں کی جا رہی ہے ۔ بے شمار مقامات ایسے ہیںجہاں کسانوں کی پیداوار ضائع ہو رہی ہے اور کسانوں کو ان کی واجبی قیمت تک نہیں مل پا رہی ہے ۔ کئی کسان ایسے ہیں جن کی پیداوار تو حکومت نے حاصل کرلی ہے لیکن ان کے بقایہ جات ابھی تک ادا نہیں کئے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ملک کے ہر بے گھر خاندان کو ایک گھر فراہم کیا جائیگا تاہم آج تک اس کا کوئی ڈیٹا عوام میں دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی حکومت نے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کی جاریہ تین معیادوں میں جملہ کتنے نئے گھر بنائے گئے ہیں۔ آئندہ کتنے گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ کام کب تک پایہ تکمیل تک پہونچے گا یہ بھی واضح نہیں ہے ۔ اسی طرح نریندر مودی نے 2014 میں وعدہ کیا تھا کہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کئے جائیں گے ۔ تاہم یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ گذشتہ 11 برسوں میں بھی جملہ 2 کروڑ روزگار فراہم نہیں کئے گئے ۔ اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ کئی سرکاری محکموں میں نوکریوں اور ملازمتوں کی تعدادکو گھٹادیا گیا ہے ۔ کئی عوامی شعبہ کے ادارے خانگی کمپنیوں کو سونپ دئے گئے ہیں۔
جہاںنوکریوں اور ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے تھا وہیںیہ تعداد گھٹا دی گئی ہے اور عوام کو پکوڑے تلنے اور پان کی دوکان لگانے کے مشورے دئے جا رہے ہیں۔ حکومت معاشی میدان میں ترقیاتی کام انجام دینے کاد عوی کر رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے ۔ ساتھ ہی خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 80 کروڑ افراد کو ماہانہ پانچ کیلو مفت راشن دیا جا رہا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ راشن خط غربت سے نچلی زندگی گذارنے والے خاندانوںکو دیا جا رہا ہے ۔ اگر واقعتا ملک کی معیشت تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے تو پھر اس کے ثمرات ملک کے عوام تک کیوں پہونچ رہے ہیں اور کس طرح سے 80کروڑ لوگ آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح یہ بھی دعوی کیا گیا تھا کہ ملک میں چند مہینوں میں مہنگائی پر قابو کیا جائیگا ۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں صد فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اور حکومت اس پر کچھ بھی کہنے اور کرنے سے قاصر ہے ۔ ترکاریاں اور دالیں تک عوام کی رسائی سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ادویات اور دودھ جیسی بنیادی ضرورت والی اشیا کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ یہاں بھی حکومت کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ۔ ملک کی معیشت میں انتہائی اہم رول ادا کرنے والے کئی شعبہ جات ایسے ہیں جہاں سرگرمیاںمتاثر ہو کر رہ گئی ہیں۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ بھی توقعات کے مطابق پیداوار کو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے ۔ خانگی شعبہ کے کئی ادارے ایسے بھی جہاں ملازمتوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے ۔ روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور نوجوان مسائل کا شکار ہیں۔
ملک میںلاکھوں خاندان آج بھی غربت و افلاس کا شکار ہیں اور انہیں ترقی کے ثمرات میں کوئی حصہ داری نہیں مل پا رہی ہے ۔ ملک کے عوام کو فوری طور پر درپیش مسائل پر توجہ دینے اور انہیں حل کرنے کی بجائے مستقبل کے سپنے دکھائے جا رہے ہیں۔ مستقبل کے منصوبے اپنی جگہ اچھی بات ہیں لیکن موجودہ اور فوری توجہ کے جو مسائل ہیں ان کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ملک اور قوم کے آج کو بہتر بنایا جائے تو مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانا زیادہ آسان ہوسکتا ہے ۔ اس پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جو بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل ہیں انہیں حل کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے مستقبل کا سفر آسان اور سہل ہوسکتا ہے ۔
منی پور ‘ پھر جل رہا ہے
ملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں ایک بار پھر تشدد میں اضافہ ہوگیا ہے اور انسانی جانوں کا اتلاف اور جائیدادو املاک کا نقصان بھی بڑھنے لگا ہے ۔ ریاست کے عوام اور مقامی طبقات کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ان میں دوریاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ ریاست کے عوام اور جو قبائل ہیں ان کو اعتماد میں لیتے ہوئے حکومت کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ کئی ماہ سے ریاست میںبد امنی پھیلی ہوئی ہے ۔ تشدد کے واقعات لگاتار جاری ہیں۔ قتل و خون چل رہا ہے اور آگ زنی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ ریاست کے عوام خوف کی زندگی گذارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کچھ وقت کیلئے حالات بہتر ہوتے ہیں اور پھر اچانک ہی بے چینی میںاضافہ ہوتا ہے تو پرتشدد واقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ چل چلاؤ والا رویہ ترک کرتے ہوئے اس مسئلہ کے مستقل اور دیرپا حل کیلئے حکومت کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ تشدد کا خاتمہ اولین ترجیح ہونا چاہئے ۔ نظم و قانون بحال کرنے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔