دولت رام

   

ناظم الدین مقبول (کینیڈا)

سیاست اخبار کی جانب سے ہر سال ’’دھوم‘‘ کے عنوان سے شہر کے معروف فنکاروں کیلئے جو اعتراف فن کی تقریب منعقد کی جاتی ہے، وہ لائق تحسین اقدام ہے۔ اس کا مقصد کئی برسوں پر محیط ان فنکاروں کی محنت، جستجو، لگن اور ان کے حوصلوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوتا ہے۔ سال رواں اس قدردانی کیلئے ہمارے ایک بچپن کے دوست جناب دولت رام کا نام بھی شامل ہے۔
دولت رام ایک سندھی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور اُردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے پر ان کو نہ صرف اُردو زبان بلکہ ان کے قریبی دوستوں کی صحبت کے نتیجہ میں مسلم تہذیب سے بہت زیادہ لگاؤ بھی ہے۔ مجھے یاد ہے 1967ء میں جب سیاست میں میرے مضامین محترم محبوب حسین جگر مرحوم کی قدردانی اور ہمت افزائی کے نتیجہ میں شائع ہونے لگے تو ایک دن میں نے دولت رام صاحب پر ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’’دولت رام ایک اُبھرتا ہوا فنکار‘‘ جب یہ مضمون لے کر میں جگر صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے کچھ ناراضگی اور شفقت کے ملے جلے انداز میں سوال کیا یہ کون ہے اور یہ کیا لکھ کر لائے ہو۔ جگر صاحب مرحوم کے دبدبہ اور ان کے سخت ڈسپلین سے سب ہی اچھی طرح واقف ہیں۔
اس وقت سیاست اخبار کے مرکزی گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک بڑے بورڈ پر تازہ اخبار لگا دیا جاتا۔ مجھے پتہ نہیں کیوں بار بار یہ خیال آتا رہا کہ دولت رام پر میرا مضمون ضرور شائع ہوگا اور جگر صاحب مجھے مایوس نہیں کریں گے۔ جب ہم دو اور دوست صبح کی اولین ساعتوں میں سیاست اخبار کے دفتر پہنچے تو تازہ خبروں کے شوقین تین چار حضرات انہماک سے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے اور ہم کو پشت کی جانب سے اخبار دیکھنے اور پڑھنے میں دقت پیش آرہی تھی، جیسے ہی دولت کی تصویر پر میری نظر پڑی، ہم دوستوں کی فرط مسرت سے چیخیں نکل گئیں اور ہم باہر کی ایک اسٹال سے اخبار کی 10 کاپیاں خریدکر ایسے خوش ہورہے تھے جیسے کسی بڑے پہاڑ کو ہم نے سر کرلیا ہو۔ کافی سال بعد جب جدہ میں جامعہ عثمانیہ کا یوم تاسیس بڑے پیمانے پر منایا گیا۔ اس میں خصوصی شرکت کیلئے محترم عابد علی خاں مرحوم اور محترم محبوب حسین جگر مرحوم تشریف لائے تھے ۔ جب میں ان سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو دوران گفتگو جگر صاحب نے خصوصی طور پر دولت رام کے اس مضمون کا ذکر دو ایک حضرات سے کیا، جو وہاں موجود تھے۔
دولت رام کی مزاحیہ کاری چپل بازار کی گلیوں اور خصوصاً بڑے بڑے چبوتروں پر شروع ہوئی جو اسکول کے اساتذہ کرام کی نقلوں تک جا پہنچی پھر گھروں میں ہونے والی چھوٹی بڑی تقاریب میں ان کی کامیڈی ایک لازمی جز بن چکی تھی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے کل ہند صنعتی نمائش میں ہر سال ہزاروں شائقین کی موجودگی میں ان کی طربیہ نگاری (کامیڈی) کو بہت پسند کیا جاتا اور لوگ کافی دیر تک انتظار کرتے کہ کب دولت رام اسٹیج پر قہقہوں کی بارش کریں گے۔
دولت رام کے تعلق سے ایک اور دلچسپ واقعہ بھی سن لیجئے۔ سلطان بازار میں واقع رائل ٹاکیز میں جمعہ کے دن نئی فلم نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں اور اس پہلے شو میں دولت رام اور ان کے والد آنجہانی رام چندر بھی موجود تھے اور فلم کے دوران دولت رام کسی سنجیدہ منظر کے دوران سن میرے بندوھ رے کا نعرہ زوردار آواز میں لگاتے جس سے سنیما ہال میں بیٹھے ہوئے تماش بین خوب لطف اندوز ہوتے اور تالیاں بجاتے۔ اِنٹرویل کے دوران دونوں باپ بیٹے کی ملاقات مرچ پکوڑوں اور مونگ پھلی کے ٹھیلے پر ہوتی تو والد صاحب کہتے: دولو (دولت رام کا مخفف) تو نے غلط سچویشن پر آواز لگائی، اب ذرا دیکھ سمجھ کر آواز نکال۔ تو گویا مزاحیہ مزاج دولت رام کو اپنے والد سے ملا ہے۔
دولت رام نے اپنے لگن اور شوق سے زندگی میں وہ مقام حاصل کرلیا ہے جو بہت کم فنکاروں کو نصیب ہوتا ہے۔ کامیڈی کے اس سفر میں دولت رام نے اپنے فن کا مظاہرہ کویت، مسقط، جنوبی آفریقہ، سنگاپور، بنکاک اور کراچی میں بھی کیا۔ دلیپ کمار صاحب بھی کبھی کبھی فرمائش کرکے انہیں ممبئی بلوالیا کرتے حیدرآباد میں اُن کا سالانہ مزاح سے بھرپور ’’ کاروان مزاح‘‘ کا شدید انتظار ہوتا ہے۔ دولت رام کو سیاست اخبار کی جانب سے اس قدر دانی اور دھوم میں سینئر فنکاروں کی فہرست میں ان کا نام آنا ان کیلئے ایک اعزاز سے کم نہیں۔ دعا ہے کہ دولت رام اسی طرح اُداس چہروں پر خوشی اور قہقہوں کے رنگ بکھی