دکن کی فیض رساں شخصیت پیوند خاک

   

شیخ الحفاظ حضرت ڈاکٹر حافظ و قاری
شیخ احمد محی الدین قادری شرفی کا سانحہ ارتحال
جامعہ نظامیہ کے علمی استحکام میں استاذ العلماء کا نمایاں کردار

یہ فیضانِ نظر بخشا گیا ہے اہلِ مکتب کو
خذف ریزوں سے کرلیتے ہیں لعل و گوہر پیدا
حیدر آباد فرخندہ بنیاد روز تاسیس سے علم و حکمت کا گہوارہ رہا ہے اسکی بنیاد بھی علم و دانش کے فروغ کے لئے ہوئی ہے ۔ فن تعمیر کا ایک انمول شاہکار ’’چار مینار ‘‘ جس کے سبب حیدر آباد کی شہرت اقطاع عالم میں ہے اسکی بنیاد در حقیقت مدرسہ اور مسجد ہی کے لئے رکھی گئی تھی۔ مشہور زمانہ شاعر کیفیؔ بانیٔ حیدر آباد محمد قلی قطب شاہ کے بارے میں لکھتا ہے ؎
جب محمد ( قلی قطب شاہ ) نے بسایا حیدر آباد دکن
در سنین حفظ از روئے جمل کر لو حساب
چارمینار بنایا مدرسہ کے واسطے
اور ’’یا حافظ ‘‘ہے تاریخ بنائے لا جواب
عماد القراء کرنل مرزا بسم اللہ بیگ مرحوم نے اپنی گرانمایہ تصنیف ’’تذکرہ قاریان ہند ‘‘ میں تیرھویں صدی ہجری میں حیدر آباد دکن کے باشندگان میں قرآن مجید کی تعلیم کو فروغ دینے میں حضرت شاہ رفیع الدین قندھاریؒ ( جو کہ شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ کے والد گرامی کے نانا ہوتے ہیں) اور آپ کے جلیل القدر خلیفہ حضرت شاہ شجاع الدین قادری علیہ الرحمہ کو مرکزی حیثیت دی ہے نیز حضرت شاہ میر شجاع الدین قادریؒ کے قائم کردہ ’’مدرسہ شجاعیہ ‘‘ کو حیدر آباد میں حفظ کلام مجید کے پہلے مدرسہ کی حیثیت سے شناخت کی جس سے بہت سے لوگ حافظ و قاری ہوئے اس میں طلباء کی رہائش کا بھی نظم تھا ۔ صد ہا طالبعلم مدرسہ میں رہکر علوم ظاہری و فیوض باطنی حاصل کرتے تھے۔ ( تفصیل کے لئے دیکھئے : تذکرہ قاریان ہند ص : ۲۰۲۔۲۰۳) 
بعد از اں حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار الله فاروقی فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ کے عہد زریں کا آغاز ہوتا ہے ، جن کی وجہ سے دکن میں بالخصوص ایک عظیم انقلاب بپا ہوا چنانچہ آپ نے مکہ مسجد میں با ضابطہ حفظ قرآن مجید کے لئے ایک عالیشان عمارت مدرسہ کے لئے تعمیر کروائی اور اس مدرسہ کو شاہی سرپرستی حاصل رہی اور مایہ ناز اساتذۂ حفظ کا تقرر عمل میں آیا ۔ مختصر مدت میں خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور حفاظ کی کھیپ کی کھیپ ظاہر ہوئی ۔ انہی فارغین حفظ میں ایک عظیم المرتبت ’’شخصیت ‘‘ کا نام نامی اسم گرامی حضرت مولنا مفتی محمد ولی اللہ قادری ہے جو جامعہ نظامیہ میں ’’مفتی ‘‘ اور ’’شیخ المعقولات‘‘ کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے ۔ آپ نے حفظ کی ابتداء اپنے بڑے بھائی حضرت حافظ محمد احمد صاحب مرحوم سے کی تھی اور حفظ کی تکمیل دوسرے برادر کلاں حضرت حافظ محمد خیراللہ صاحب سے کی تھی ۔ آپ کے تمام برادران حافظ قرآن و حامل فرقان تھے ۔ حیدرآباد میں آپ کے خاندان کو ’’حفاظ کے خاندان ‘‘ سے شہرت ہوئی اور یہ تینوں برادران حیدرآباد کے چنندہ حفظ کے استاذ کی حیثیت سے مرکزیت حاصل کرلئے ۔
ان تینوں اکابر کو عرصہ دراز سے قرآن مجید کی خدمت کے عوض تدریس کا غیر معمولی تجربہ حاصل ہو گیا تھا اور انہوں نے طلبا ء کی سہولت کی خاطر حفظ کے طور طریقے اور اصول وضوابط مقرر کر لئے تھے جس سے راست طلباء کو فائدہ پہنچتا تھا ۔ ان تینوں اکابر سے اکتساب فیض کرنے والی عظیم ہستی کا نام نامی شیخ الحفاظ استاذ العلماء حضرت ڈاکٹر حافظ و قاری شیخ احمد محی الدین قادری شرفی ہے ۔ آپ نے جامعہ نظامیہ سے کامل الحدیث کی تکمیل کی۔ جامعہ نظامیہ کے جلیل القدر شیوخ کرام سے بھر پور استفادہ کیا ۔ بطور خاص حضرت مولنا مفتی عبد الحمیدؒ ، حضرت مولنا مفتی محمد سعیدؒ ، حضرت مولنا سید شاہ طاہر رضوی صدر الشیوخ جامعہ نظامیہ کے علاوہ متعدد اکا بر وقت سے استفادہ کیا ۔
آپ کا سارا خاندان شرفی چمن سے وابستہ رہا۔ اور آپ تاج العرفاء حضرت سید شاہ محمد سیف الدین قادری شرفی علیہ الرحمہ سے ارادت و عقیدت رکھتے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ کے فیوضات سے مستفیض ہوئے اور آپ سے سلسلہ کا فیض جاری ہوا اور عقیدتمندوںاور سالکان راہِ طریقت کی ایک عظیم تعداد آپ سے فیضیاب ہوئی ۔
آپ کی شخصیت پر حضرت مولنا مفتی محمد ولی اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کا حد درجہ اثر تھا اور استاذ و شاگرد کی باہمی محبت و تعلق بے مثالی رہی ۔
فاش کر دیتی ہے اسرار حیات
سو دبستاں اک نگاہِ ہوشمند
چنانچہ آپ اپنے استاذ گرامی قدر کے نہج پر چلتے ہوے ایک حفظ کے مدرسہ کی بنیاد حضرت مولنا مفتی سعید صاحب سابق شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کے دست مبارک سےرکھی ۔ بعد ازاں اس مدرسہ کا نام دارالعلوم النعمانیہ رکھا اور خون جگر سے خوب آبیاری کی حتی کہ اس چھوٹے سے مدرسہ نے مختصر وقت میں شہر حیدرآ باد و اطراف میں ہزار ہا حفاظ پیدا کر دئیے اور آپ کو شہر حیدرآباد کے حفاظ کرام کی مرکزیت و مرجعیت حاصل ہو گئی نیز آپ کے قائم کردہ ادارہ نعمانیہ کا معیار دیگر مدارس و ادارہ جات کے لئے ایک اسٹانڈرڈ بن گیا ۔ اسی طرح حضرت مفتی محمد ولی اللہ قادری رحمتہ اللہ علیہ کا طریقہ تھا کہ وہ حفاظ طلباء کےلئے باشعور و فہم رکھنے والا طلباء کی جماعت بنا کر نحو صرف ، عربی ادب اور منطق کے بنیادی قواعد ازبر کر کے ان کو جماعت مولوی اول میں شریک کرتے ۔ چنانچہ آپ نے بھی اپنے اُستاذ گرامی کی تقلید میں اپنے ادارہ نعمانیہ میں ایک سالہ علمی کو رس کا سلسلہ شروع کیا اور اس اقدام میں بھی غیر معمولی تائید یز دی شامل حال رہی اور سینکڑوں طلباء اس شعبہ سے مستفید ہوئے اور جامعہ نظامیہ میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے نصب کئے وہیں طلباء فارغ ہو کر جامعہ نظامیہ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے اور آج جامعہ نظامیہ کے ذمہ دار عہدوں پر فائز ہیں اور جامعہ نظامیہ کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے ہیں ۔ نیز شہر حیدرآباد اور دکن کے مختلف علاقہ جات میں نعمانیہ کے فارغین قوم و ملت کی خدمت میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ بہت ہی کم ایسے بندے ہوتے ہیں جنکی ذات سے مختصر وقت میں فیض کا سیل رواں جاری ہوتاہے ؎
تو نے نسل نو کو بخشا ہے شعور علم وفن
ہے تیری ذات گرامی ، لائق صد احترام
مت سہل اُنھیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں
(جاری)