نفرت پھیلانا ، تشدد کیلئے اُکسانا اب ہندوستان میں جرم نہیں !
رام پنیانی
سوراج پال امو کی توہین آمیز اور نفرت انگیز تقریر کے بعد اسے بی جے پی ریاستی یونٹ کا ترجمان بنایا گیا۔ دادری میں عیدالاضحی کے موقع پر بیف یا گائے کے گوشت کے مسئلہ پر اخلاق کو قتل کردیا گیا اور جب اخلاق کو قتل کرنے والے ملزمین میں سے ایک کی موت ہوئی تب ایک مرکزی وزیر (مہیش شرما) اس کی نعش کو ترنگے سے لپیٹنے کیلئے پہنچ گئے۔ جب ہجومی تشدد کے 8 ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا گیا تب ایک اور مرکزی وزیر جیئنت سنہا نے اُن ملزمین کی گلپوشی کی۔ ویسے بھی یہ تمام واقعات کو پیش آئے کافی عرصہ گزر چکا ہے، ان واقعات کی تفصیل میں جانے کی بجائے حال ہی میں پیش آئے اس واقعہ کے بارے میں بتائیں گے جب ایک مرکزی وزیر نے دہلی میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ’’دیش کے غداروں کو ،گولی مارو…‘‘ جیسا نعرہ لگایا۔ اس مرکزی وزیر کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اُسے ترقی دے کر مملکتی وزیر سے کابینی درجہ کا وزیر بنادیا گیا۔ آپ کو یاد دلادیں کہ ہمارے وزیراعظم اس وقت بولنے لگتے ہیں جب عام طور پر انہیں بولنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اور جب کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، کچھ بولنے کی ضرورت ہوتی ہے، تب وہ خاموش رہتے ہیں یا پھر حافظ جنید یا روہت ویمولا کے قتل واقعات کے بعد بڑی تاخیر و مشکل سے کچھ بولتے ہیں۔
ہمارے ملک میں حالیہ عرصہ کے دوران دو ایسے خطرناک بلکہ امن میں خلل پیدا کرنے والے واقعات پیش آئے ، اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی نے خاموشی اختیار کی اور ان کی خاموشی کو سارے ملک کے عوام نے محسوس کیا ۔ 19 ڈسمبر کو پہلا واقعہ پیش آیا جس میں ’’سدرشن ٹی وی‘‘ کا ایڈیٹر اِنچیف سریش چاؤہانکے نے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو حلف دلایا یا ان سے عہد لیا۔ وہ ایونٹ ہندو یووا واہنی (اس کا قیام چیف منسٹر اترپردیش اور گورکھ ناتھ پیٹھ کے مہنت یوگی ادتیہ ناتھ نے عمل میں لایا تھا) ۔ چاؤہانکے نے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو یہ حلف دلایا کہ ہم اپنی آخری سانس تک اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے لڑیں گے، مریں گے اور ضرورت پڑنے پر قتل کریں گے۔ ایک اور ایونٹ زعفرانی لباس زیب تن کئے ہوئے سادھوی اور سادھوؤں نے ہری دوار میں منعقد کیا اور اسے ’’دھرم سنسد‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ دھرم سنسد غازی آباد میں واقع ایک مندر کے صدر پجاری یتی نرسنگھانند نے منعقد کی تھی۔ ان کے اہتمام کردہ اس دھرم سنسد کا عنوان ’’اسلامی دہشت گردی اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ رکھا گیا تھا جس میں خود یتی نرسنگھانند نے پرزور انداز میں کہا کہ مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ نہیں چلے گا۔ یاد رکھو کوئی بھی کمیونٹی ہتھیار اٹھائے بناء اپنی بقاء کو یقینی نہیں بنا سکتی اور آج کے دور میں تلوار کام نہیں کرتی۔ تلواریں صرف شہ نشین پر اچھی لگتی ہیں، آپ کو اپنے ہتھیار اپ ڈیٹ کرنے چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ عصری اور بہتر ہتھیار آپ کے پاس ہوں گے، تب وہ آپ کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ نرسنگھانند نے ’’ستیہ میو جئتے‘‘ جیسے بہترین نعرہ کو بدل کر مسلمانوں کے خلاف مسلح تشدد کے لئے ہندو نوجوانوں کو اکساتے ہوئے یہ نعرہ لگایا ’’شستر میو جئتے‘‘۔ ایک اور ویڈیو میں نرسنگھانند کو ہندو نوجوانوں کو ایل ٹی ٹی ای لیڈر پربھاکرن بننے پر ایک کروڑ روپئے کی پیشکش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جو ایل ٹی ٹی ای لیڈر پربھاکرن بننے کیلئے انہیں اکسانے کی خاطر کی گئی۔ نرسنگھا نند ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ جو ہندو نوجوان پربھاکرن بنے گا ، اسے ایک کروڑ روپئے دیئے جائیں گے۔ انہوں نے بھنڈراںوالا بننے پر بھی ایک کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بھنڈراں والا خالصتانی لیڈر تھے۔ دوسری طرف انا پورنا ماں (سابقہ نام پونم شکون پانڈے) نے جو ہندو مہا سبھا کی جنرل سیکریٹری ہیں، یہ کہتے ہوئے مزید اشتعال انگیزی کی کہ ہمیں ایسے 100 سپاہیوں کی ضرورت ہے جو اُن (مسلمانوں) میں سے 20 لاکھ کو مارسکتے ہوں۔ اس سادھوی نے یہ بھی کہا : ’’ماتر شکتی کے شیر سے پنجے ہیں، پھاڑ کر رکھ دیں گے‘‘۔ پونم شکون پانڈے وہی ہے جس نے چند سال قبل میرٹھ میں گاندھی جی کا پتلا بناکر اس پتلے میں سرخ رنگ بھرا اور اس پر گولیاں چلائیں اور وہاں موجود دوسرے لوگوں میں مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اسی طرح بہار سے تعلق رکھنے والے دھرم داس مہاراج نے جو دھرم سنسد میں موجود تھے، کچھ یوں زہر اُگلا: ’’اگر میں اس وقت پارلیمنٹ میں موجود رہتا جب منموہن سنگھ نے یہی کہا تھا کہ ہندوستان کے قدرتی وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے، تو پھر ناتھو رام گوڈسے کے نقش قدم پر چلتا اور ریوالور سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سینہ میں 6 گولیاں اُتار دیتا۔ یہ چند مثالیں ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ دھرم سنسد میں کیا ہوا، اس قسم کے اجلاس اکثر و بیشتر وشوا ہندو پریشد منعقد کرتی ہے، اور اس نے شہادت بابری مسجد کے پیش نظر اس طرح کے اجلاس شروع کئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر ویڈیوز وائرل کئے جارہے ہیں اور ان ویڈیوز کو وائرل کرنے والوں تک پولیس کی رسائی بھی ہے، تاہم اب تک اس ضمن میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ جو کوئی بھی اس قسم کے بیانات جاری کررہے ہیں، ہمارے ملک کے قانون کے مطابق وہ مجرم ہیں۔ اس کے باوجود انہیں شاید اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یہ عناصر اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ بڑی خاموشی سے ان کی اشتعال انگیز تقاریر کی ستائش کررہے ہیں یا پھر یہ اشتعال انگیز بیانات و تقاریر مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بنائی گئی خصوصی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہیں ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ تمام واقعات ایک ایسے وقت ہورہے ہیں جبکہ اسٹانڈ اَپ کامیڈین منور فاروقی کو ایک ایسے لطیفے کیلئے گرفتار کرلیا گیا جو اس نے کہا ہی نہیں تھا۔ یہی نہیں بلکہ پولیس اور حکومتوں نے کئی مرتبہ مختلف مقامات پر منور فاروقی کے شوز منسوخ کردیئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھرم سنسد اور دوسرے پلیٹ فارمس پر جس انداز میں اشتعال انگیز بیانات جاری کئے جارہے ہیں، ان بیانات اور تقاریر کا اقلیتوں پر کیا اثر پڑے گا۔ اقلیتیں ہمارے ملک کے شہری ہیں اور انہیں دیگر شہریوں کے مماثل اور مساوی اختیارات حاصل ہیں، لیکن ہندوتوا فورسیس اور ہندو راشٹر کے حامیوں کی جانب سے دیئے جانے والے قتل عام کے بیانات سے خوف و دہشت ایسے نقطہ عروج پر پہنچ جائے گی، دھمکانے والوں میں بھی اضافہ ہوگا، کیونکہ جو بھی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز اور نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے، اسے راتوں رات مقبول بنا دیا جاتا ہے۔ یہ قائدین اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ زندگیوں کو ختم کرنے یعنی جان سے ماردینے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ انہیں الگ تھلگ کرکے انتہائی برائی کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کئی ایک سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ان تمام حالات سے پریشان ہوکر جمعیتہ العلماء ہند کے محمود مدنی نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو مکتوب روانہ کیا ہے۔
یہ بھی اہم سوال ہے کہ آیا ان اشتعال انگیز بیانات پر اقلیتی کمیشن ازخود نوٹ لے سکتا ہے۔ کیا پولیس خاطیوں کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے یا پھر حال ہی میں مرتد ہوکر ہندوازم اختیار کرنے والے جیتندر تیاگی کے خلاف برائے نام ایف آئی آر درج کرکے خاموش ہوجاتی ہے؟ آج کل یہ بھی سوال سارے ہندوستان میں کیا جارہا ہے کہ اب تک سپریم کورٹ اس معاملے میں ازخود کارروائی کیلئے بیدار کیوں نہیں ہوئی۔ اس قدر شدید نفرت اور اشتعال انگیز بیانات نے عالمی سطح پر حساس شخصیتوں کو بھی خوف و دہشت میں مبتلا کردیا ہے ، وہ بھی ہندوستان میں نفرت کے سوداگروں کے اشتعال انگیز بیانات کو لے کر پریشان ہیں۔ مثال کے طور پر ٹینس کی افسانوی کھلاڑی مارٹینا نوراتلووا نے ٹوئٹ کرتے ہوئے ہندوستان کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور ان ٹرینڈس نے عالمی میڈیا کی بھی توجہ حاصل کرلی ہے۔ ویسے بھی 2020ء میں روزنامہ ’’گارجین‘‘ نے ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس میں حکمراں بی جے پی کو اس کی فرقہ پرستی کیلئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس مضمون میں ہندوستانی جمہوریت کے بارے میں تشویش ظاہر کی گئی۔ ہندوستان میں حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں اور عیسائیوں پر جو حملے ہوئے ہیں، ان کے خلاف جس طرح نفرت کا بازار گرم کیا گیا ہے، ساری دنیا میں اس کے خلاف آواز اُٹھائی جارہی ہے۔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ہر موقع مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ، اس معاملے میں عالمی میڈیا کا بھی کردار انتہائی بھیانک رہا۔ امریکی میڈیا نے تو اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح گھڑتے ہوئے پہلے ہی سے فرقہ پرستی کا نشانہ بنے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکرنے کا کام کیا۔ پچھلے سات برسوں کے دوران مرکز میں بی جے پی زیرقیادت حکومت کی سرپرستی میں مسلم دشمن اقدامات اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئے۔ ان حالات میں تمام غیربی جے پی جماعتوں کو متحد ہوکر آواز اٹھانی چاہئے اور حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے۔