جانتا ہوں کہ محبت کا خطا وار ہوں میں
سوچتا ہوں ابھی الزام ہیں دل پر کتنے
ملک بھر میں دیکھا جا رہا ہے کہ مختلف مواقع پر کسی ریاست یا شہر میں دھماکو مادے بھیجے جانے کے انتباہ اور پیامات موصول ہو رہے ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی خاص موقع پر ہی اس طرح کے انتباہ دئے جاتے ہیں۔ پھر پولیس کی جانب سے سخت چوکسی اختیار کی جاتی ہے ۔ اس طرح کے پیامات کی تحقیقات کی جاتی ہے اور پھر پتہ چلتا ہے کہ کسی نے شرارتا اس طرح کا دھمکی آمیز پیام روانہ کیا ہے ۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف کیا کچھ کارروائی کی جاتی ہے اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔ گذشتہ دنوں میں دو مواقع پر اس طرح کی صورتحال دیکھنے میں آئی ہے ۔ جس وقت بہار میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی کی جانب سے ووٹر ادھیکار یاترا چل رہی تھی اور یہ اپنے عروج پر پہونچ گئی تھی ۔ عوام کا زبردست اس یاترا کو حاصل ہو رہا تھا اس وقت یہ اطلاع دی گئی کہ بہار میں تین دہشت گرد گھس آئے ہیں اور وہ کسی بھی وقت کوئی بڑی کارروائی کرسکتے ہیں۔ تاہم بعد میں بہار کے اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل لا اینڈ آرڈر نے اس اطلاع کی تردید کردی اور کہا کہ بہار میں کوئی دہشت گرد داخل نہیں ہوئے ہیں۔ پھر ایک دن قبل ممبئی میں 400 کیلوگرام آر ڈی ایکس بھیجے جانے کا انتباہ دیا گیا ۔ اس میں کسی مسلم تنظیم کا نام لیتے ہوئے خبردار کیا گیا تھا ۔ کہا جا رہا تھا کہ 400 کیلوگرام آر ڈی ایکس کے ذریعہ ایک کروڑ افراد کو ہلاک کیا جاسکتا ہے ۔ یہ کوئی معمولی انتباہ نہیں تھا ۔ ممبئی میں یہ دھمکی اس وقت دی گئی جبکہ گنیش وسرجن کا موقع تھا ۔ مہاراشٹرا میں یہ تہوار انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور لو گ بڑی تعداد میں اس میں شرکت کرتے ہیں ۔ ایسے میں یہ انتباہ روانہ کیا گیا جس کے بعد پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے چوکسی اختیار کرلی ۔ اب پتہ چلا ہے کہ بہار سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے یہ دھمکی آمیز پیام روانہ کیا تھا ۔ اسے نوئیڈا میں گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ اس شخص کی اشونی کمار سریش کمار سوپرا کی حیثیت سے شناخت ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ اسے سم کارڈ فراہم کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ متعلقہ ایجنسیاں اس سے پوچھ تاچھ کا آغاز کرچکی ہیں۔
اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ ایسے پیامات روانہ کرنے والوں کو یا تو ذہنی مریض قرار دیا جاتا ہے یا پھر کسی پریشانی کا مسئلہ کا شکار بتا کر معاملہ کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس طرح کی دھمکیاں اکثر اہم مواقع پر ہی دی جاتی ہیں اور کسی مسلم تنظیم یا ادارہ یا فرد کا نام استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور رسواء کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل واقعات ہوتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں سماج کا سکون اور امن و چان متاثر ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ایسے واقعات پر معمول کی کارروائی کرنے کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے پس پردہ کیا کچھ محرکات ہیں ان کا پتہ چلایا جانا چاہئے تاکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کو یقینا بناتے ہوئے دوسروں کیلئے عبرت کا سامان کیا جاسکے ۔ ممبئی میں 400 کیلو آر ڈی ایکس پہونچانے کی جو دھمکی تھی اسے معمولی نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی ایسا پیام روانہ کرنے والے کو کسی خاندانی تنازعہ یا پریشانی کا شکار بتا کر معمولی کارروائی پر اکتفاء کیا جانا چاہئے ۔ ممبئی ملک کا تجارتی دارالحکومت ہے ۔ اس کے علاوہ گنیش تہوار کا موقع ہے ۔ وسرجن جلوس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد شرکت کرتے ہیں ۔ ایسے میں ایک پیام روانہ کرتے ہوئے ساری ریاستی مشنری کو پریشان کردینا اور عوام کیلئے خطرہ کے اندیشے ظاہر کرنا معمولی بات نہیں ہوسکتی ۔ اس طرح کی دھمکیوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے پوری تہہ تک پہونچنے کی ضرورت ہے ۔
اس بات کی تحقیقات کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس طرح کے اہم مواقع یا عوامی تقاریب کے موقع پر ہی ایسے دھمکی آمیز پیامات کیوں روانہ کئے جاتے ہیں۔ اس کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے پیامات روانہ کرنے والے آخر کون لوگ ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ چند ایک معاملات کو اگر سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے تو پھر دوسروں کیلئے عبرت ہوسکتی ہے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات اور دھمکیوں کا اعادہ نہ ہونے پائے اور عوامی سکون اور چین کو یقینی بناتے ہوئے غیر ضروری اندیشوں کا تدارک ممکن ہوسکے ۔
ٹرمپ کے لب و لہجہ میں نرمی
ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات حالیہ عرصہ میں کشیدہ ہوگئے ہیں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہندوستان پر 50 فیصد تک شرحیں عائد کردی گئی ہیں۔ ہندوستان نے بھی امریکہ کے مقابلہ میں روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کی سفارتی کوششوں میں تیزی پیدا کرتی ہے ۔ تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اب صدر ٹرمپ کے لب و لہجہ میں کچھ نرمی دکھائی دے رہی ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اب بھی اپنا دوست قرار دیا ہے تاہم کہا کہ فی الحال وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے ۔ ٹرمپ کے بیان پر وزیر اعظم مودی نے بھی مثبت رد عمل ظاہر کیا ہے اور یہ اشارے ملنے لگے ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کچھ بہتری پیدا ہوسکتی ہے ۔ ہندوستان کیلئے امریکہ کے ساتھ تعلقات اہمیت کے حامل ضرور ہیں لیکن قومی مفادات اور تجارتی امور پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی نرم لب و لہجہ سے کسی غلط فہمی کا شکار ہونا چاہئے ۔ ٹرمپ کے عزائم پہلے ہی واضح ہوچکے ہیںایسے میں مستقبل میں جو کچھ بھی شراکت داری ہو یا تعلقات ہوں ہندوستان کو چوکسی برتنے کی ضرورت ہے ۔