ملک میںبرسر اقتدار پارٹی بی جے پی مسلسل یہ ڈھنڈورا پیٹتی ہے کہ وہ دہشت گردی کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرتی اور اس کیلئے ملک اور اس کی سلامتی اولین اہمیت کی حامل ہے ۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ ہوں ‘ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا پھر پارٹی کے دوسرے قائدین اور مرکزی وزرا ہی کیوں نہ ہوں سبھی دہشت گردی کے خلاف بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ پرجوش تقاریر کرتے ہیں اور عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ملک کے مفادات اور سلامتی ہی اس کیلئے اولین ترجیح ہیں۔ تاہم بھوپال سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو پارٹی نے امیدوار بناتے ہوئے اپنے ہی دعووں کی قلعی کھول دی ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ دہشت گردی سے مقابلے کی باتیں اس کیلئے عوام کو بیوقوف بنانے کی مشین ہیں اور اس کے پاس سوائے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے کوئی بات اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔ اس کیلئے دہشت گردی کے مقدمات میں ملزم افراد کو لوک سبھا کیلئے ٹکٹ دینا بھی کوئی معیوب بات نہیں ہے جبکہ وہ دوسروں کو ڈسیپلین اور قانونی مقدمات اور ضمانتوں کے طعنے دیتے نہیں تھکتی ہے ۔ خود پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھی مالیگاوں بم دھماکوں کے مقدمہ میں ضمانت پر ہے ۔ اس پر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث رہنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں اور اسی کو بھوپال لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی نے اپنا امیدوار بنادیا ہے اور جب اس پر تنقیدیں ہونے لگیں تو بی جے پی نے اس کو صریح فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بھی گریز نہیں کیا ہے ۔ حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ فرہق پرستانہ سوچ کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم نے ہی ظاہر کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس نے ملک میں پرامن رہنے والی ہندو برادری کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے ہندووں کی توہین کی تھی اسی لئے اس کا جواب دینے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو لوک سبھا کا ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ یہ قانون سے مذاق ہے اور اس کے ذریعہ ہندو ۔ مسلم خلیج اور نفرت کو ہوا دینے کی کوشش ہے ۔ یہ کوشش بی جے پی کے سبھی قائدین کرتے ہیں اور جب کبھی انتخابات آتے ہیں مودی بھی اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور ایسے ریمارکس ان کا طرہ امتیاز بن جاتے ہیں۔
حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ جس ریاست میں بی جے پی تین معیادوں تک برسر اقتدار رہی اور ملک بھر میں اس کی حکومت ہے ‘ اس کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے اس کے کروڑہا ارکان ہیں اور اس پارٹی کو بھوپال سے میدان میں اتارنے کیلئے کوئی صاف امیج والا امیدوار تک دستیاب نہیں ہوسکا ہے اور اسے پرگیہ سنگھ جیسی دہشت گردی کے مقدمہ میں ماخوذ امیدوار کا انتخاب کرنا پڑا ہے ۔ اس کے علاوہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی امیدواری اور وزیر اعظم کی جانب سے ان کی مدافعت سے ملک میں ہندو ۔ مسلم خلیج کو بھی بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور فرقہ وارانہ خطوط پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی سعی تیز ہوگئی ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ نریندر مودی ترقی یا حکومت کے کارناموں کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگنے کے موقف میں نہیں ہیں اور نہ وہ مانگ رہے ہیں۔ وہ عوام میں محض جملہ بازیوں سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ وہ یا تو ملک کی مسلح افواج کے کارناموں کا استحصال کرتے ہوئے ووٹ مانگ رہے ہیں یا پھر ہندو مسلم خلیج کو بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کسی طرح بی جے پی کو مرکز میں اقتدار دوبارہ حاصل ہوسکے ۔ کہیں ساکشی مہاراج جیسے امیدوار میدان میں ہیں جو ووٹ نہ دینے پر بد دعا دینے کی دھمکی دے رہے ہیں تو کہیں منیکا گاندھی ہیں جو کام نہ کرنے اور روزگار سے محروم کرنے کا انتباہ دے رہی ہیں۔ بی جے پی کے امیدواروں میں پاک صاف امیج مشکل سے ہی ملے گی ۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کی حکومت یا خود وزیر اعظم نریندر مودی ‘ دہشت گردی کے ملزمین کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں ؟ ۔ کیا پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی تائید کرتے ہوئے وزیر اعظم تحقیقاتی ایجنسیوں کو بالواسطہ کوئی پیام تو نہیں دینے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ ۔ کیا ان پر دباو نہیں بنایا جا رہا ہے کہ آئندہ انہیں تحقیقات کس ڈھنگ سے انجام دینی چاہئیں۔ اس کے علاوہ سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے دینے والے مودی کو صرف ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پر اعتراض ہو رہا ہے لیکن انہوں نے کبھی اسلامی دہشت گردی ‘ جہادی عناصر جیسی اصطلاحات پر کوئی اعتراض نہیں کیا حالانکہ وہ صرف بی جے پی کارکن نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم بھی ہیں اور یہاں 20 کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں۔ بحیثیت مجموعی بی جے پی نے پرگیہ ٹھاکر کو میدان میں اتارتے ہوئے دہشت گردی پر سمجھوتہ کا اشارہ ضرور دیا ہے ۔
مایاوتی ۔ ملائم ایک اسٹیج پر
اترپردیش کے پارلیمانی حلقے مین پوری میں جمعہ کو ایک ایسا سیاسی اسٹیج دیکھنے میں آیا جس پر دو روایتی اور کٹر حریف ایک ساتھ دیکھے گئے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی تعریفیں کیں اور خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا ۔ یہ حریف ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی ہیں۔ یہ دونوں اب حلیف بن گئے ہیں۔ حالانکہ دونوں جماعتوں کے مابین انتخابی مفاہمت پہلے ہی ہوچکی ہے لیکن کہا یہ جا رہا تھا کہ ملائم سنگھ یادو اس اتحاد سے خوش نہیں ہیں اور وہ اس انتخاب میں مشترکہ جلسوں اور ریلیوں سے دور رہیں گے ۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ مین پوری کے جلسہ سے عین قبل تک بھی ملائم سنگھ یادو اس میں شرکت کیلئے تیار نہیں تھے لیکن انہوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ مایاوتی کی ستائش کی اور ان سے خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا ۔ اپنی پارٹی کے کارکنوں پر زور دیا کہ وہ مایاوتی کی عزت کریں اور ان کے مشکور رہیں۔ یہ سیاسی دوستی ہے لیکن یقینی طور پر اس کے اترپردیش کے بہت گہرے اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ دو بلند قامت سیاسی قائدین جو عوام کے بڑے گروپس پر اپنا اثر رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے کٹر حریف تھے وہ اب ساتھ ہوگئے ہیں اور اس سے ریاست کے عوام پر جو مثبت اثرات ہونگے اور انہیں اتحاد کو جو پیام دیا گیا ہے وہ اس اتحاد کے مخالفین کیلئے پریشانی کا باعث ہوگا ۔ مایاوتی کا اپنا حلقہ اثر ہے اور ملائم سنگھ یادو بھی گھاگ سیاستدان ہیں۔ ان دونوںکے اتحاد نے یو پی کی سیاست کو نیا موڑ دیا ہے اور اس سے بی جے پی کے حوصلے پست ہوسکتے ہیں اور جو رائے دہندے ان جماعتوں سے کچھ دوری بنائے ہوئے تھے وہ بھی اب ان کے ساتھ آسکتے ہیں۔